سہیل احمد عظیمی کا جنوری ۱۹۹۵ کے روحانی ڈائجسٹ میں چھپنے والےمضمون کا مجموعہ۔

تعارف

 

خواب ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے کشف و الہام کی ابتداء ہوتی ہے ۔ حقائق اور غیب کا انکشاف خواب کی صلاحیت کے ذریعے واقع ہوتا ہے ۔ حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے خواب کی تعبیر کے ذریعے جن رموز سے پردہ اٹھایا ہے سہیل احمد صاحب کی اس تحریر کے ذریعے قارئین کی نذر ہے ۔

 

زمانہ قدیم سے انسان کے لئے خواب دیکھنا ایک معمہ بنا ہوا ہے ۔ وہ سو جاتا ہے اور مادی دنیا سے اس کے حواس بے خبر ہوجاتے ہیں لیکن وہ پھر بھی خود کو اسی طرح چلتا پھرتا ، باتیں کرتا اور وہ سارے کام کرتے دیکھتا ہے جو وہ بیداری میں جسم کے ساتھ کرتا ہے ۔

 

طرح طرح کے مناظر اسے خواب میں دکھائی دیتے ہیں ۔ عام طور پر انسان یہ کہہ کر خواب کو رد کردیتا ہے کہ یہ تو محض میرے خیالات اور وہ باتیں ہیں جن سے میں بیداری میں گزرتا ہوں اور جو حافظے میں محفوظ ہوجاتی ہیں ۔ یہی باتیں سوتے میں بھی یاد آتی رہتی ہیں۔

 

لیکن انسان بہت سے خواب ایسے دیکھتا ہے جن کا تاثر بہت گہرا ہوتا ہے اور اس کے اندر قدرتی طور پر یہ تجسس بیدار ہوجاتا ہے کہ آخر ان تمام باتوں کا کیا مطلب ہے ؟ یا پھر وہ کوئی نہ کوئی ایسا خواب دیکھتا ہے جو کچھ عرصے بعد بیداری میں من و عن پورا ہوجاتا ہے ۔ اس موقع پر وہ چونکتا ہے اور اس کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ خواب کی دنیا محض خیالات نہیں ہیں بلکہ اس کے اندر اسرار پنہاں ہیں۔

 

حدیث نبوی صلّ اللہ علیہ وسلّم ہے کہ …

 

انبیاء کا ورثہ علم ہے

 

انبیاء کرام کو علم لدنی حاصل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں خصوصی علوم عطا فرماتے ہیں ۔ ان علوم میں سے ایک علم خواب کی تعبیر سے متعلق ہے ۔

 

حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ

 

خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔

 

امام سلسلہ عظیمیہ حضرت محمّد عظیم برخیا قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تشریح میں فرمایا کہ انبیاء کرام نے علوم لدنیہ کی تدوین فرمائی تو اس کے ابواب قائم کئے ۔ خواب اور خواب کی تعبیر کا علم ان علوم کا چھیالیسواں باب ہے ۔ علم لدنی کے اس باب میں یہ بات تعلیم کی جاتی ہے کہ خواب کیا ہے اور انسان خواب میں کن واردات و کیفیات سے گزرتا ہے ۔ نیز خواب کی صلاحیتوں اور قوتوں کا استعمال اسی باب کا حصہ ہے ۔

علم روحانیت کی مطابق خواب ایک ایسی ایجنسی ہے جس کے ذریعے کشف و الہام کی ابتدا ہوتی ہے ۔ حقائق کا کشف اور غیب کا انکشاف خواب کی صلاحیت کے ذریعے واقع ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے میں اس بات کی طرف واضح اشارہ موجود ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآ له وسلّم کی زندگی میں بھی بہت سے واقعات خواب کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں ۔ آپؐ کا معمول تھا کہ نماز فجر کے بعد صحابہ کرام سے ان کے خواب پوچھتے اور ان کی تعبیر عنایت فرماتے تھے ۔  انبیاء کرام علیہ السلام کے وارث اولیاء اللہ کو خواب کا علم انبیاء سے منتقل ہوتا ہے ۔

 

ایک ایسے ہی ولی کامل امام سلسلہ عظیمیہ قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ تھے ۔ ایک کامل و مکمل ولی کی جو نشانیاں بیان کی جاتی ہیں وہ آپؒ میں لوگوں نے مشاہدہ کیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو نظامت کے فریضہ اور تکوین کی خدمت سپرد فرمائی اور آپؒ کے وجود با مسعود کو لوگوں کی روحانی تشنگی دور کرنے کا ذریعہ بنایا ۔

قلندر بابا اولیاؒء کی خدمت میں جو افراد حاضر رہے ہیں وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ آپؒ کی شخصیت خود ایک کرامت تھی ۔ آپؒ کا ذہن قدرت کے فارمولوں میں گم تھا ۔ آپؒ مختصر گفتگو کرتے لیکن جو بات بیان فرماتے اس میں الہام کا رنگ صاف جھلکتا تھا ، اس لئے کہ آپؒ نے کشف و الہام اور معرفت کی ان گنت منازل طے کی تھیں ۔ آپ حامل علم لدنی تھے ۔

اللہ تعالیٰ نے آپؒ کے قلب کو علوم لدنیہ کا گنجینہ بنا دیا تھا ۔ آپؒ اس کا اظہار پسند نہیں فرماتے تھے لیکن کبھی کبھی ایسے حالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوجاتے تھے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپؒ ان علوم کا اظہار فرمادیتے تھے ۔ ان علوم و تصرفات کا مشاہدہ کرکے لوگ حیران ہوجاتے تھے اور ان کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ، رسول پاک  صلی اللہ علیہ وآ له وسلّم کی محبوبیت اور اولیاء اللہ کی تعلیم کا عکس ایمان ، یقین و سکون بن کر نقش ہوجاتا تھا ۔

حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا کہ … ” خواب دیکھنا عالم رویاء کا ایک عکس ہے یا عالم رویاء کا ایک حصہ ہے ۔ عالم رویاء پوری کائنات کا تحت الشعور ہے ۔ عالم رویاء میں انسان کی انا جسم کے بغیر سفر کرتی ہے ۔ انبیاءؑ اور اولیاءؒ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عالم رویاء میں سفر کرنے کی خصوصی صلاحیت اور قوت عطا ہوتی ہے اسی علم کے ذریعے یہ حضرات پوری کائنات میں سفر کرتے ہیں اور مرنے سے پہلے اور بعد کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ روح کے علوم رویاء کی صلاحیت کی ذریعے اولیاء اللہ کے قلوب پر نازل ہوتے ہیں ۔ ”

 

سن ساٹھ کی دہائی کے آخر میں آپ کے خانوادہ خواجہ شمس الدین عظیمی نے خواہش ظاہر فرمائی کہ اخبار میں کالم کے ذریعے لوگوں کو علم روحانیت کا پیغام پہنچایا جائے چنانچہ روحانی مضامین اور لوگوں کے مسائل کے حل پیش کرکے اس کی ابتداء کی گئی ۔ اسی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے خواب اور ان کی تعبیر بھی انہی کالموں میں شائع کرکے روحانی علم کا فیض عام کیا گیا ۔ اس وقت یہ علم حقیقی معنوں میں عوامی سطح پر سامنے آیا اور ایک ایسا ذریعہ پیدا ہوا جس سے ہر شخص فائدہ اٹھا سکے۔

چنانچہ روزنامہ جنگ ، جسارت ، حریت اور مشرق کے ذریعے ہزاروں لوگوں کے خواب اور ان کی تعبیر پیش کی گئی ۔ شروع شروع میں خود حضور قلندر بابا اولیاؒء نے ازراہ رہنمائی خواب کی تعبیر لکھوائی۔ بعد ازاں یہ علم جناب خواجہ شمس الدین عظیمی کو ودیعت فرما کر یہ کام ان کے سپرد کردیا چنانچہ مذکورہ بالا اخبارات کے علاوہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں ایک عرصے تک لوگوں کے خواب اور ان کی تعبیریں شائع ہوتی رہیں ۔

 

قلندر بابا اولیاؒء نے خواب کی تعبیروں کو جس خوبصورت ، بلیغ اور واضح انداز میں لکھوایا یہ ان کا خاصہ تھا ۔ آپؒ نے خواب کی تعبیروں کے ذریعے جس طرح لوگوں کے مسائل اور ان کے حل ، لوگوں کے مستقبل کا انکشاف ، امراض کی نشاندہی اور علاج کے لئے مشورے عنایت فرمائے وہ علم روحانیت کی تاریخ کا ایک نادر و منفرد باب ہے ۔

 

قلندر بابا اولیاؒء کی زبان الہام بیان نے جو تحریر لکھا دی وہ علم معارف کا ایک شاہکار ہے ۔ وہ لوگ خوش قسمت تھے جنہوں نے آپؒ کی صحبت میں بیٹھ کرآپؒ کی زبان سے حقائق و معارف سنے لیکن اللہ کا بہت بڑا کرم ہے کہ آپ کے بہت سے ارشادات و تحریریں ریکارڈ کی صورت میں آنے والی نسلوں کے لئے موجود ہیں ۔ ان تحریروں کو پڑھ کر روح میں سرشاری اور قلب میں وجد کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے

 

نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے

جو بات  مرد   قلندر  کی  بارگاہ   میں   ہے

ہر انسان عالم رویاء سے تعلق رکھتا ہے لیکن وہ اس تعلق کو ایک علم کی صورت میں نہیں سمجھ سکتا ۔ علم لدنی کے حامل افراد اس تعلق کے فارمولوں کا مشاہدہ کرنے کی قوت رکھتے ہیں اور کسی شخص کو عالم رویاء سے کیا اطلاعات ملتی ہیں اس کا ٹھیک ٹھیک ادراک و شہود ایسے بندوں کو حاصل ہوتا ہے ۔ وہ خواب کی تعبیر کی صورت میں ان اطلاعات کی وضاحت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کسی شخص کو خواب کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں ۔ حضور قلندر بابا اولیاؒء بھی تعبیر خواب پر خصوصی دسترس رکھتے تھے ۔تعبیر خواب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جب کبھی کوئی قاری تعبیر خواب کی علمی جزئیات کو سمجھنا چاہتا تو حضور قلندر بابا اولیاؒء خواب اور تعبیر خواب کے بارے میں بہت سی باتیں اختصار سے بیان کردیتے تھے ۔ اگلی سطورمیں بابا صاحبؒ کی بعض ایسی تحریروں سے اقتباس اور خوابوں کی تعبیریں مختلف عنوان کے تحت جمع کرکے قارئین کے سامنے پیش کی جارہی ہیں ۔

 

خواب یا عالم رویاء کے بارے میں  قلندر بابا اولیاؒء ارشاد فرماتے ہیں،

 

نوع انسانی آفرینش سے آج تک بیداری اور خواب کے مظاہر کو الگ الگ کرنے کے لئے امتیازی خط نہیں کھینچ سکی ۔ ذرا خواب کی علمی توجیہہ پر غور کیجیئ۔ خیال ، تصور ، احساس اور تفکر ذہن کے نقوش ہیں۔ یہی وہ نقوش ہیں جو اندرونی دنیا کہلاتے ہیں ۔ ان ہی نقوش کی روشنی میں بیرونی دنیا کو پہچانا جاتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ اندرونی اور بیرونی دنیا کے نقوش مل کر ایک ایسی دنیا بنتے ہیں جس کو ہم واقعاتی دنیا سمجھتے ہیں۔انسان عالم خواب میں چلتا پھرتا ، کھاتا پیتا ہے ۔ من و عن انہی کیفیات سے گزرتا ہے جن سے عالم بیداری میں گزرتا ہے ۔ وہ جس چیز کو جسم کہتا ہے اس کی حرکت عالم خواب اور عالم بیداری دونوں میں مشترک ہے ۔ عالم بیداری میں بار بار واپس آنے کا سراغ انسانی حافظے سے ملتا ہے لیکن انسانی حافظہ خود  دور ابتلاء سے گزرتا رہتا ہے ۔ یہ کبھی کمزور ہوجاتا ہے کبھی معمول پر آجاتا ہے۔

حافظے کا ذرا سا تجزیہ کیجئے تو پس پردہ ایک ایجنسی ایسی ملے گی جو دیدہ و دانستہ حافظہ کی روئیداد میں فقط اس لئے کمی بیشی  کرتی رہتی ہے کہ انسانی کردار کو نمایاں اور غیر معمولی بنا کر پیش کر سکے ۔ یہیں سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ عالم بیداری سے متعلق انسانی حافظے کا بیان مستند نہیں ہوسکتا۔

یہ صحیح ہے کہ انسانی حافظہ عالم خواب کی روئیداد بہت ہی کم محفوظ کرتا ہے تا ہم حافظے کے اس طرز عمل سے عالم بیداری کی روئداد کو امتیاز حاصل نہیں ہوتا ۔ حافظہ تنہا کبھی کام نہیں کرتا ۔ اس کے ساتھ تراش خراش کرنے والی ایجنسی ضرور لگی رہتی ہے اور حافظے کی دلچسپی اس ہی روئداد سے وابستہ رہتی ہے جس میں تراش خراش کرنے والی ایجنسی کی کارپردازی زیادہ ہو۔ شاذ ہی ہوتا ہے کہ حافظہ عالم خواب کا تذکرہ کرے ۔ وجہ ظاہر ہے کہ تراش خراش کرنے والی ایجنسی کی دلچسپی عالم خواب میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ایسا نہ ہوتا تو انسانی حافظہ عالم خواب کو رد کرنے کا عادی نہ ہوتا ۔ اب سنجیدگی کا فتویٰ بجز اس کے کچھ نہیں ہوسکتا کہ عالم خواب زیادہ مستند ہے۔اس کا تجزیہ حافظے کے اسلوب کار کو سمجھنے سے بآسانی ہوجاتا ہے ۔ حافظہ چند باتوں کو رد کرتا ہے اور چند باتوں کو دہراتا ہے ۔ رد کی ہوئی باتیں بھول کے خانے میں جا پڑتی ہیں اور شعور ان سے بے خبر رہتا ہے ۔ روزمرہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ ہم اخبار پڑھتے ہیں ، چند باتیں یاد رکھتے ہیں اور باقی بھول جاتے ہیں۔ انسان کی آفرینش ہی سے حافظے کا یہ طرز عمل اس کے اطوار میں داخل رہا ہے ۔ اسی لئے عالم خواب کی علمی تشکیل اور توجیہہ فکر انسانی نے اب تک نہیں کی ہے ۔ کشف و الہام عالم خواب ہی سے شروع ہوتے ہیں ۔

 

خواب روح کی زبان ہے

 

حضور بابا صاحبؒ کا اعجاز تھا کہ وہ خواب کی تعبیر کے ساتھ ساتھ جہاں ضرورت ہوتی خواب کے علم کی جزئیات اور اس کی تشریحات بھی بیان فرما دیتے تھے ۔ ان تشریحات و توجیہات سے علم تعبیر خواب کی وہ عظمت و وسعت سامنے آئی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔

ایک ایسا ہی خواب اور اس کی تعبیر ہم درج کرتے ہیں جس میں قلندر باباؒ نے اس بات کیاجمالاً  وضاحت فرمائی ہے کہ شعور انسان کو خواب میں اطلاعات کیوں موصول ہوتی ہیں ۔

 

خواب  نمبر ۱

یقین کی قوت

کراچی سے رفعت جہاں صاحبہ نے اپنا خواب یوں لکھا،

میں نے دیکھا کہ میں چار پانچ سال کی بچی ہوں اور اپنے اسکول کی چھت پر کھڑی ہوں ۔ آسمان صاف شفاف ہے جیسے بارش کے بعد گرد و غبار دھل جانے کے بعد آسمان کا رنگ نکھر جاتا ہے ۔ کسی طرف سے بادل کا ایک دبیز ٹکڑا آسمان پر آگیا اور اس بادل کے ٹکڑے پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے …یہ بادل کسی فلمی منظر کی طرح گزر گیا ۔ اس کے پیچھے بادل کے بڑے بڑے ٹکڑے آئے ۔ ان پر قرآن کریم کی مختلف آیات لکھی ہوئی ہیں ۔ یہ بادل بھی ہوا کے دوش پر بہت دور چلے گئے پھر ایسا ہوا کہ دو بادل کے ٹکڑے نظر کے سامنے آکر ٹھہر گئے ۔ ان دونوں کے درمیان ایک بزرگ صورت انسان کا چہرہ نمودار ہوا ۔ یہ بزرگ مسکرا کر میری طرف دیکھ رہے ہیں ۔

درخواست ہے کہ خواب کی تعبیر کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں کہ خواب کیوں نظر آتے ہیں۔

جواب

جواب میں  قلندر بابا اولیاؒء نے یوں تحریر فرمایا …

خواب کو اختصار میں سمجھنے کے لئے چند باتیں پیش نظر رکھنا ضروری ہیں ۔

۱۔ انسانی زندگی کے تمام کاموں کا دارومدار حواس پر ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا کہ حواس کیا ہیں اور کس طرح مرتب ہوتے ہیں تفصیل طلب ہے ۔ صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ہمارے تجربے میں حواس کا زندگی سے کیا تعلق ہے …حواس کو زیادہ تر اسٹف Stuff  بصارت سے ملتا ہے ۔ اس اسٹف کی مقدار  % 95  یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ باقی اسٹف جو تقریباً  % 4  ہے بقیہ چار حصوں کے ذریعے ملتا ہے ۔ دراصل یہ اسٹف کوڈ  Code یا استعارے کی صورت اختیار کرلیتا ہے …ہم استعارے کو اپنی زندگی کی حدود میں اس کی ضروریات اور اس کے متعلقات کے دائرے میں سمجھتے اور بیان کرتے ہیں ۔ انہی استعاروں کے اجتماعی نتیجے سے  ہماری زندگی کی میکانیکی تحریکات اور اعمال و وظائف اعضاء بنتے ہیں …ان اعمال و وظائف میں ایک ترتیب ہوتی ہے ۔ ترتیب کو قائم رکھنے کے لئے ذات انسانی میں ایک تفکر پایا جاتا ہے یہ تفکر جسے روح کہہ سکتے ہیں شعور سے ماوراء ہے چاہے اس کو لاشعور کہیئے ، یہی تفکر شعور کو ترتیب دیتا ہے ۔ ان میں زیادہ سے زیادہ استعارے محدود ضرورتوں اور محدود عقل ، محدود اعمال و وظائف کے دائروں سے باہر ہوتے ہیں …اب جو کم سے کم استعارے باقی رہے ۔ ترتیب میں آئے اور شعورکا نام  پاگئے  ان کو بیداری کی زندگی کہا جاتا ہے اور کثیر المقدار استعارے خواب کے لا محدود ذخیروں میں منتقل ہو جاتے ہیں ۔

۲ ۔ کبھی کبھی ذات انسانی ، انا ، روح یا لاشعور کو ان لامحدود ذخیروں میں سے کسی جزو کی ضرورت پڑجاتی ہے ۔ اس کے دو اہم مندرجات ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جو بیداری کی زندگی سے متعلق مستقبل میں کام کرتے ہیں ۔ دوسرے وہ جو شعور کے کسی تجربے کو یاد دلاتے ہیں تاکہ شعور اس کا فائدہ اٹھا سکے …جب روح ان ذخیروں میں سے کسی جزو کو استعمال کرتی ہے تو اس جزو کا تمام اسٹف نہ شعور حافظہ میں رکھ سکتا ہے نہ سنبھال سکتا ہے بلکہ خال خال حافظہ میں رہ جاتا ہے ۔ اسی کو شعور خواب کا نام دیتا ہے …

اس تشریح کی روشنی میں خواب کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے … جو استعارے بچپن میں بصورت عقائد فہم میں نہیں سما سکتے ، اب وہ خواب میں اس لئے دہرائے گئے ہیں کہ شعور ان کو تشریح اور تفصیل کے ساتھ سمجھے ۔ ساتھ ہی اعتماد اور یقین کی پختگی حاصل کرے …

تعبیر

ایک بزرگ کا چہرہ اس امر کا تمثل ہے کہ ابھی شعور میں یہ چیزیں ناپختہ ہیں ۔ ذہن ڈگمگاتا ہے ۔ اور یقین کی وہ قوت طبیعت کو حاصل نہیں ہے جو مستقبل کے محرکات اور اعمال و وظائف بنتے ہیں ۔ طبیعت نے انتباہ کیا ہے کہ اس قوت کا حاصل کرنا زندگی کے لائحہ عمل میں استحکام پیدا کرنے کے لئے اور فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے …

روح نے یہ بتایا کہ بہتر اور کامیاب زندگی اس طرح حاصل ہوسکتی ہے کہ یقین کی قوت سے کام لیا جاتا ہے ۔ یہ قوت ہی منزل تک پہنچا سکتی ہے ۔ دوسرا خواب بھی اسی خواب کا اعادہ ہے ۔ استعارے معکوس ہیں ۔

 

خواب نمبر۲

اولاد کی خوش خبری

 

کراچی کے شاہد صاحب نے اپنا خواب یوں لکھا …  میں نے دیکھا کہ میں اپنی بیوی کے پاس بیٹھا ہوں کچھ فاصلے پر ایک عورت بیٹھی توے پر گھی پگھلا رہی ہے ۔ میں اس عورت کے پاس گیا اور ڈرتے ڈرتے گلاب کا پھول اسے پیش کیا ۔ عورت نے مسکرا کے اسے قبول کیا اور میں نے گلاب کا پھول توے پر موجود گھی میں ڈال دیا ۔

 

تعبیر

حضور قلندر بابا اولیاؒء نے بذریعہ تعبیر اولاد کی بشارت ان الفاظ میں دی ۔

دونوں عورتوں کے چہرے بیوی ہی کے دو چہرے ہیں ۔ کسی دوسری عورت کا چہرہ نہیں ہے ۔ گلاب کی پیشکش پر اظہار خوشی اولاد نرینہ کی خوش خبری ہے ۔

 

خواب نمبر۳

امتحان میں کامیابی کی نوید

 

شہباز خان نے اپنا خواب ان الفاظ میں بیان کیا …   ” میں اردو اور معاشرتی علوم کا پرچہ حل کر رہا ہوں ۔ اردو کے پرچے میں دو گھنٹے لگ جاتے ہیں پھر جلدی جلدی دوسرا پرچہ حل کرتا ہوں ۔ میرے بعد دو اور لڑکوں نے استاد صاحب کو حل شدہ پرچے دیئے …میں کلاس میں بیٹھا ہوں کہ میرا دوست گاجریں لایا ہے ۔ یہ گاجریں وہ استاد صاحب کو دینا چاہتا ہے لیکن میں اسے منع کر دیتا ہوں اور خود ایک صاف ستھری گاجر استاد کو دینا چاہتا ہوں لیکن وہ انکار کردیتے ہیں ۔ ”

 

تعبیر

بابا صاحبؒ نے تعبیر خواب میں یہ خوشخبری عنایت فرمائی …

آئندہ ہونے والے امتحان میں ایک پرچے کے نمبر زیادہ ، ایک پرچے کے نمبر کم اور باقی مضامین میں نمبر اچھے حاصل ہوں گے ۔ مجموعی طور پر ڈویژن مل جائے گی ۔

 

غلط طرز عمل کی نشاندہی

 

بہت سے خوابوں کی تعبیر میں  قلندر بابا اولیاؒء نے سائلین کے غلط طرز عمل کی نشاندہی فرمادی جن سے ان کی فکر و عمل کو نقصان پہنچ رہا تھا اور جن سے نجات حاصل کرنا بہتر زندگی اور اچھے مستقبل کے لئے ضروری تھا ۔ ایسے چند خواب اور بابا صاحب کی زبان الہام بیان سے ان کی تعبیر ہم ذیل میں درج کرتے ہیں ۔

 

خواب نمبر۴

خصائل و عادات

شمیم صاحبہ نے اپنا خواب بیان کرتے ہوئے لکھا …

 

میری امی نہر کے کنارے ایک درخت کے نیچے کھڑی ہیں ۔ ایک آدمی گزرتے ہوئے کہتا ہے .. شاباش تم اس آدمی کی ( میرے والد کی طرف اشارہ کرکے ) بیوی ہو ۔

دوسرا خواب یہ ہے کہ   …  کوئلے دھک رہے ہیں ان کوئلوں پر ایک مرغی آکر گرتی ہے اور جل جاتی ہے ۔ امی نوکر کو آواز دیتی ہیں کہ جلدی سے چھری لاؤ تاکہ مرغی ذبح کرلیں ۔

 

تعبیر

بابا صاحبؒ تعبیر کے ضمن میں فرماتے ہیں …

امی جان کے بے جا پیار نے خصائل و عادات پر بہت برا اثر ڈالا ہے ۔ درخت کا سایہ ، اماں ابا کی صورتیں ، ایک آدمی کا نعرہ تحسین بلند کرنا یہ سب خاکے ہیں اچھے خصائل کو ردی سمجھنے کے ۔

دوسرا خواب پہلے خواب کا انتباہی رخ ہے ۔ یہ رخ خبردار کر رہا ہے کہ موجودہ روش فوراً ترک کردی جائے ورنہ مستقبل تاریک ہونے کا اندیشہ ہے ۔ دہکتی آگ میں مرغی کا جلنا نتیجہ کی نشاندہی کرتا ہے ۔ ” چھری لاؤ ” شرط کی تصویر ہے کہ یہ روش ترک نہ کی گئی تو” چھری مرغی ذبح ” سارا بندوبست لاحاصل ہوجائے گا ۔

 

خواب نمبر۵

اپنی کامیابی دوسروں کی برائی

بیگم منظور حسین رسول نے اپنا خواب تحریر کیا …

دیکھتی ہوں کہ زبردست سیلاب آیا ہوا ہے اور ایک مسجد سیلاب کے پانی میں ڈوب گئی ہے ۔ پانی میں بےشمار قرآن پاک تیر رہے ہیں ۔ پانی میں بہت سے نوجوان کھڑے ہیں ۔ میں کنارے پر کھڑی ہوکر کہتی ہوں کہ ایک صاف اور خشک قرآن پاک جو سب سے اچھا ہو مجھے لا دو ۔ ایک جوان میرے ہاتھ پر قرآن پاک لا کر رکھ دیتا ہے ۔ میں اس سے پھر کہتی ہوں کہ ایک رحل بھی لا دو ۔ پھر کچھ سوچ کر کہتی ہوں کہ ایک اور قرآن مجید لا کر دو ۔ وہ کہتا ہے کہ اب قرآن پاک قیمتاً ملے گا ، یہ سن کر مجھے مایوسی ہوتی ہے ۔

 

تعبیر

بابا صاحبؒ نے تعبیر یہ فرمائی …

مسجد کا سیلاب میں ڈوبنا ، قرآن پاک کے نسخوں کا پانی میں تیرنا ، ایک نسخے کا حصول ، دوسرے نسخے کے حصول میں ناکامی ، ان اوراد و وظائف کے خاکے ہیں جو پڑھے گئے ہیں ۔  ان کا اپنی بہتری کے لئے پڑھنا تو ٹھیک ہے لیکن دوسروں کی برائی کے لئے پڑھنا ہرگز مناسب نہیں ۔

 

خواب نمبر۶

سستی اور غرض

میاں اقبال سندھو نے لکھا …

ایک عورت نے مجھ سے کہا دیکھو میں گھر سے اٹھ کر نماز کے لئے آگئی ہوں مگر تم ابھی تک نہیں اٹھے یا تم نماز نہیں پڑھو گے ؟ انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے پوچھا ، تم کہاں رہتے ہو ؟ میں نے اپنا کمرہ بتایا تو وہ کمرے میں گئیں پھر وہاں سے باہر آکر وضو کیا اور فجر کی دو رکعت نماز مسجد میں ادا کی پھر میرے سرہانے بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگیں ۔

دیکھا کہ ایک دوست جوگی کی ساتھ کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور اسی کے ذریعے دو منہ والا سانپ لٹکا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم اپنی قوت اور صلاحیتوں کی بہت ڈینگ مارتے ہو اگر مرد ہو تو اس سانپ کو مار کر دکھاؤ ۔

تعبیر

 

حضور قلندر بابا اولیاؒء نے سائل کے بعض غلط رجحانات کی یوں نشاندہی فرمائی …

۱۔ عورت اور نماز ، خوشی اور نیکی کے رجحانات ہیں ۔ طبعیت مائل تو ہوتی ہے مگر آرام طلبی مانع آجاتی ہے ۔ یہ روش ترک کردینی چاہیئے ۔

۲۔آپ کوئی کام برابر کر رہے ہیں ۔ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ یہ کام بہت بڑے اجر کا مستحق ہے اور بہت بڑی نیکی ہے ۔ یاد رکھئیے یہ کام اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں کیا جارہا ہے اس کے پس پردہ آپ کی کوئی غرض دوڑ رہی ہے ۔ نہ یہ نیکی ہے اور نہ اس کا کوئی اجر ہے۔

 

خواب نمبر۷

محنت اور تندہی

ایم طاہر صاحب نے اپنا خواب ان الفاظ میں بیان کیا …

محکمہ کی طرف سے خط موصول ہوا کہ آپ کو بہت زیادہ فعال اور متحرک ہونے کی وجہ سے ایگریکلچر میں دو سالہ کورس کے لئے انڈونیشیا بھیجا جارہا ہے ۔ صبح اٹھ کر حیران ہوا کہ یہ حکم کیسا تھا کیوں کہ ایگریکلچر سے میرا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔

 

تعبیر

بابا صاحبؒ نے خواب کے معانی کو یوں واشگاف فرمایا …

لاشعور نے بتایا ہے کہ معاشی ترقی محنت اور تندہی کے ساتھ کام کرنے سے ہی مل سکتی ہے ۔ ایگریکلچر اور انڈونیشیا تندہی اور مسلسل تندہی کے نقش ہیں جن کا تصور ذہن میں موجود نہیں ہے ۔ محض سینیارٹی حصول ترقی کے لئے کافی نہیں ہے ۔

 

خواب نمبر۸

دشمنی  اور فائدہ

غلام مصطفیٰ نے خواب کے تمثلات ان الفاظ میں تحریر کئے ۔

میں اپنے چچا کے مکان میں داخل ہوا ۔ دیکھا کہ مکان خالی ہے ۔ اچانک ہتھیلی میں جلن محسوس ہوئی ۔ دوسرے ہاتھ سے ہتھیلی دبا دیتا ہوں اور جلن ختم ہوجاتی ہے ۔ پیچھے دیکھتا ہوں تو دو سانپ بیٹھے ہیں ۔ ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا۔ چھوٹا سانپ ہل رہا ہے ۔ جب کہ بڑا سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہے ۔ میں مارنے کی کوشش کرتا ہوں تو سانپ غائب ہوجاتا ہے ۔ میں اسے تلاش کرکے مار دیتا ہوں اور آگ میں ڈال دیتا ہوں ۔ سانپ کے جلتے وقت ایک عورت کی آواز آتی ہے دیکھو یہ سونا تو نہیں بن گیا ۔

 

تعبیر

حضور قلندر بابا اولیاؒء نے سائل کے خواب میں چھپے ہوئے پیغام کو ان الفاظ میں واضح فرمایا …

آپ کسی سے دشمنی کرکے اور اس کو نقصان پہنچا کر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔ یہ طرز فکر غلط اور لاحاصل ہے ۔ چچا کا خالی مکان ، سانپ کو مار کر آگ میں ڈالنا ، عورت کی آواز کا یہ کہنا دیکھو یہ سونا تو نہیں بن گیا ، بہت واضح علامتیں ہیں ۔

 

خوابوں کے ذریعے امراض کی تشخیص و نشاندہی

 

خواب نمبر۹

نزلہ حار کی بیماری

ذیشان احمد صاحب نے خط میں لکھا …

کسی نامانوس جگہ موجود ہوں میز پر کھانا لگا ہوا ہے ۔ میری والدہ نے ایک مرتبان میں سے اچار نکال کر مجھے دیا ۔ یہ اچار نیولے کا تھا ۔ میں نے پورا نیولا روٹی پر رکھا اور نیولے کی گردن توڑ کر کھا گیا ۔اس خواب سے پہلے میری والدہ نے خواب میں دیکھا کہ  …    ایک گرگٹ ہے جس کی دم ایک گز لمبی ہے ۔ انہوں نے گرگٹ کا سر کچل کر پھینک دیا ۔ اس کے بعد میری بہن نے جس کی عمر اٹھارہ سال ہے خواب میں دیکھا کہ …  ایک گرگٹ اس کی دائیں ہتھیلی اپنے جبڑوں کی گرفت میں لئے ہوئے ہے ۔ درد اور تکلیف سے بہن کی آنکھ کھل گئی ۔

 

تعبیر

قلندر بابا اولیاؒء نے خواب کی تعبیر یہ لکھوائی …

 

آپ کے والدہ کے اور بہن کے خوابوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تینوں کو نزلہ حار کی بیماری ننہیال کی طرف سے ورثے میں ملی ہے ۔ یہ بیماری کسی طرح کی الرجی ہے ۔

یہ بیماری نزلہ حار کے علاوہ دماغی اور اعصابی کمزوری کی صورت اختیار کرلیتی ہے ۔ صحیح اور مکمل علاج کرائیے اس سے نجات حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔

 

خواب نمبر۱۰

بیماری کی غلط تسخیص

عبدالماجد صاحب نے اپنا خواب یوں لکھا …

 

ہم تین آدمی بارش میں کہیں جارہے ہیں ۔ سب کے پاس چھتریاں ہیں ۔ چلتے چلتے ایک بند آگیا ۔ اس بند کو عبور کیا تو ایک ٹیلے پر پہنچ گئے ۔ ٹیلے کے اوپر ایک جھونپڑی تھی جس میں ایک صاحب موجود تھے ۔ ان صاحب نے ہمیں ایک قلعے کا راستہ بتایا … قلعے پر پہنچے تو دیکھا کہ سرخ رنگ کا قلعہ تھا اور اس کے تین دروازے تھے ۔ قلعے میں بہت بڑی فوج جمع تھی اور ہمارے پاس تلواریں تھیں ۔ وہاں ایک سپاہی نے مجھے چھرا مارا جو دیوار میں پیوست ہوگیا ۔ یہی چھرا میں نے نکال کر سپاہی کے سینے میں گھونپ دیا اور وہ ہلاک ہوگیا ۔

تعبیر

تعبیر خواب میں یہ انکشاف سامنے آیا …

آپ نے اپنی بیماری کا جن صاحبان سے علاج کرایا ہے وہ اس کو سمجھ نہیں سکے ہیں ۔ اس بیماری کی بنیاد جگر کی خرابی ہے ۔ ٹیلہ ، جھونپڑی ، قلعے کی نشاندہی یہ سب خاکے ہیں جگر کی بیماری کے ۔ بارش بیماری کا تمثل ہے … چھتری والے خواہ عطائی ہیں یا سند یافتہ معالج ہیں ۔ ان کی تشخیص غلط ہے ۔ چھرا اور ہلاکت بیماری کا خاتمہ ہیں ۔ ہوشیار معالج سے علاج کرائیں ، انشاء اللہ شفا ہوگی ۔

 

خواب نمبر۱۱

نمک کی فاسد مقدار

عبدالمجید صاحب نے اپنا خواب بیان کرتے ہوئے لکھا …

ایک فقیر دروازے پر صدا لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ کھانڈ دے دو ۔ میں نے کہا اسے کھانڈ دے دو ۔ دوسری دفعہ فقیر آیا اور کہا چاول دے دو ۔ بچوں نے کہا چاول نہیں ہیں ۔ کہنے لگا ، کھانڈ ہی دے دو ۔ اس کو کھانڈ دے دی گئی۔یہ کیا راز ہے ۔ فقیر تو آٹا روٹی اور پیسے مانگتے ہیں یا پرانا کپڑا طلب کرتے ہیں ۔

 

تعبیر

اس خواب میں جو اشارہ موجود ہے اسے  بابا صاحبؒ نے یوں واشگاف فرمایا …

نمک زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے جسم میں فاسد رطوبات بڑھ جاتی ہیں ۔ مقدار میں اعتدال ہونا چاہیئے ۔ لاشعور نے اعصابی حالت کی تصویر دکھا دی ہے ۔ فقیر کا کھانڈ طلب کرنا اور چاول مانگنا نمک کی فاسد مقدار اور رطوبت کے اشارات ہیں ۔

 

خواب نمبر۱۲

پرانی اعصابی بیماری

ناصر حسین صاحب کا خواب کچھ یوں ہے …

دیکھا کہ کچھ لوگ میری تلاش میں ہیں اور میں ان سے چھپتا پھر رہا ہوں ۔ کافی تگ و دو کے بعد میں اپنے آپ کو بلند و بالا عمارت پر دیکھتا ہوں ۔ وہ عمارت کسی تعلیمی درسگاہ کا ایک حصہ ہے ۔ وہاں اور لوگ بھی موجود ہیں … وہ لوگ مجھے پکڑ لیتے ہیں اور ایک ریڑھی پر بٹھا کر تیزی سے لے جاتے ہیں ۔ رفتار اتنی تیز ہے کہ عمارت بہت چھوٹی سے نظر آرہی ہے … پھر میں خود کو ایک مکان میں پاتا ہوں ۔ کمرے میں ایک صاحب چارپائی پر سفید چادر اوڑھے لیٹے ہیں ۔ میں چادر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو وہ ایک لاش تھی ۔   پھر دیکھا کہ کمرے کے ایک کونے میں حوض بنا ہوا ہے اور اس حوض میں انسانی اعضاء بکھرے ہوئے ہیں … اس گھر میں ایک عورت بھی ہے جو کہتی ہے کہ تمہارا بھی یہی حشر ہوگا ۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوتی ہے ۔ عورت دروازہ کھول دیتی ہے اور بہت سی عورتیں اندر داخل ہوکر انسانی اعضاء پر ٹوٹ پڑتی ہیں اور کھانے لگتی ہیں ۔

تعبیر

قلندر بابا اولیاؒء نے خواب کی کڑیوں کو جوڑ کر معنی یوں واضح فرمائے …

خواب میں لوگوں کی تلاش کئی اعصابی بیماریوں کی سمت ایک اشارہ ہے ۔ بلند و بالا عمارت کا مطلب ہے کہ یہ بیماری پرانی ہوچکی ہے مگر عمارت تعلیمی درسگاہ ہے اس سے مراد ہے کہ بیماری لاعلاج نہیں ہے …کچھ لوگوں کا ریڑھی پر بٹھا کر لے جانا اور عمارت کا چھوٹا سا نظر آنا ایک مکان ، ایک ، کمرہ ، سفید چادر میں لپٹا ہوا ایک شخص ، چادر کے اندر اس شخص کی لاش ، حوض میں انسانی اعضاء کا بکھرا ہوا دیکھنا یہ سب نقوش ہیں غلط علاج ، غلط تشخیص او غلط دواؤں کے …  کوئی عورت علاج کے سلسلے میں غلط مشورہ دیتی ہے ۔ بہت سی عورتوں کا انسانی اعضاء کھانے پر ٹوٹ پڑنا سب بے احتیاطیوں اور بد پرہیزیوں کی علامت ہیں ۔ اس طرح لاشعور نے تنبیہہ کیا ہے کہ ہوشیار معالج سے پرہیز کے ساتھ علاج کروایا جائے ۔

 

صحیح لائحہ عمل کا تعین

 

خواب نمبر۱۳

پہلے نکاح اور بعد میں رخصتی

مدیحہ صاحبہ لکھتی ہیں …

خواب میں دیکھا کہ مرحومہ والدہ اور بہن بھائی قرآن پاک پڑھ رہے ہیں ۔ والدہ اٹھ کر دروازے سے باہر آتی ہیں تو میرے منگیتر باہر سے آتے ہیں ۔ ان کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ ہے ۔ وہ یہ ڈبہ مجھے پکڑا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مٹھائی ہمارے پاس آخری عمر تک رہے گی۔ جب میں ڈبہ کھولتی ہوں تو اس میں ساڑھی ہوتی ہے ۔ منگیتر دوسرے کمرے میں جا کر صراحی سے پانی پینا چاہتے ہیں مگر والدہ کہتی ہیں کہ پانی اس وقت تک نہ پینا جب تک گلاس پاک نہ کرلیا جائے ۔

 

تعبیر

بابا صاحب تعبیر خواب میں فرماتے ہیں …

طرفین میں یہ گفتگو ہورہی ہے کہ پہلے نکاح کرلیا جائے اور رخصتی بعد میں کی جائے ۔ یہ طریقہ کار مضر ثابت ہوسکتا ہے ۔ اور اس سے زندگی کے کئی گوشوں میں نقصانات کا اندیشہ ہے ۔ اس لئے یہ طریقہ کار اختیار نہیں کرنا چاہیئے ۔ نکاح اور رخصتی ساتھ ساتھ ہونی چاہیئے۔ سرپرستوں کے ذہن میں یہ بات جس طرح مناسب ہو ڈال دی جائے ۔ خواب میں ناصاف گلاس ، ساڑھی ، صراحی سب خاکے اسی نامناسب طریقہ کار پر گفتگو اور کاربند ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں اور لاشعور متنبہ کر رہا ہے کہ ہرگز ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔

 

خواب نمبر۱۴

کاروباری حریف

سکندر علی صاحب نے اپنا خواب بیان کیا …

ہم ایک ریتیلے میدان میں ہاکی کھیل رہے ہیں ۔ گیند ہمارے گول کی طرف زیادہ آرہی ہے ۔ مخالف ٹیم گیند پر ہٹ لگاتی ہے تو میدان میں بہت زیادہ ریت اڑتی ہے ۔

عجیب بات یہ ہے کہ میری ٹیم کے کھلاڑی ایک طرف ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور میں اکیلا ہی جوانمردی سے گیند روکنے کی کوشش کر رہا ہوں ساتھ ہی ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی جوش دلا رہا ہوں کہ وہ میدان میں آئیں اور ٹیم کو شکست سے بچائیں مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔

 

تعبیر

بابا صاحبؒ اس خواب کو عملی زندگی سے منسلک کرتے ہوئے فرماتے ہیں …

آپ جس کاروبار میں مصروف ہیں اس کاروبار میں کچھ طاقتور حریف آپ کے مقابل جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں ۔ اگرچہ ان کی طاقت زیادہ ہے لیکن وہ آپ کو شکست نہیں دے سکتے لیکن یہ لوگ پھر بھی مقابلے سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ مخالفوں کا گیند پر ہٹ لگانا ، ریت اڑانا ، ٹیم کے کھلاڑیوں کا ٹس سے مس نہ ہونا ان ہی چیزوں کے تمثلات ہیں ۔ ہمت کرکے جمے رہیئے کامیابی ہوگی ۔

 

 

بشارت اور مشکل کشائی

 

خواب نمبر۱۵

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآ له وسلّم کا دیدار

محمّد آصف صاحب کا خواب اس طرح ہے …

۱۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآ له وسلّم کو خواب میں دیکھا   آپؐ حجرے میں تشریف فرما تھے ۔ ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف رکھتے تھے ۔

۲۔   ایک عید گاہ کی دیوار ہے ۔ دیوار کے سامنے صحابہ کرامؓ صف باندھے کھڑے ہیں ۔ میرے ساتھ کوئی دوست بھی ہے ۔ دیوار کی پشت سے زوردار آواز آئی ۔ ابو تمامہ ۔ میں نے چونک کر کہا ، ” یہ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآ له وسلّم کی آواز ہے ۔”   اگلے ہی لمحے  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآ له وسلّم تشریف لائے  آپؐ  کی نگاہیں مجھ پر مرکوز تھیں اور مسلسل فرما رہے تھے … ابو تمامہ ، ابو تمامہ ، اس آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔میں اسلام پر بہت کچھ لکھتا رہا ہوں ۔ خیال آیا کہ حضور صلّ اللہ علیہ وسلّم ، ابو تمامہ کے متعلق پڑھنے کو کہہ رہے ہیں لیکن مذہبی کتابوں میں یہ نام کہیں نہیں ملا ۔ ازراہ کرم اس راز سے پردہ اٹھائیں۔

 

تعبیر

حضور بابا صاحبؒ نے سائل کی مشکل کشائی کرتے ہوئے بتایا ۔

۱۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآ له وسلّم کی شبیہہ مبارک نظر آنا بہت بڑی سعادت ہے ۔ اس کی تعبیر میں کوئی لاحل مسئلہ حل ہونے والا ہے جو آپ کے لئے خوش خبری ہے ۔

۲۔ صحابہ کرامؓ کی زیارت بھی بہت بڑا شرف ہے ۔ ابو تمامہ سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآ له وسلّم کی مراد یہ ہے کہ حضرت آدم کی سنت پر پوری طرح عمل کرو ۔ حضرت آدم کی سنت توبہ و استغفار ہے ۔ اور ابو سے مراد حضرت آدم ہیں ۔اللہ تعالیٰ توفیق عطا کریں ۔

 

مصیبت سے نجات کی پیشن گوئی

 

خواب نمبر۱۶

 

فاروق مصطفیٰ صاحب لکھتے ہیں …

مجھے معلوم ہوا کہ میرا دوست موٹر سائیکل کی مرمت کرتے ہوئے بری طرح جل گیا ہے اور اس حادثہ سے اس کا ذہنی توازن بھی خراب ہوگیا ہے ۔ دوست پولیس کے ساتھ اس شخص کو تلاش کر رہا ہے جو اس حادثہ کا ذمہ دار ہے ۔ میں یہ خبر سن کر دوست کی تلاش میں تقریباً دوڑتا ہوا ریلوے لائن کے پاس پہنچ گیا ۔ وہاں دوست مجھ سے بغلگیر ہوا لیکن گلے لگتے ہی میرے بائیں کندھے پر کاٹ لیا ۔ پولیس والوں نے مجھے زبردستی اس کے شکنجے سے چھڑایا ۔ کچھ در بعد عوامی ایکسپریس آگئی۔ لوگوں نے اس کو بہت غور سے دیکھا اور وہ مجھ سے ملنے کے لئے آگے بڑھا تو میں خوفزدہ ہوکر وہاں سے بھاگ آیا اور ایک مکان کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوگیا ۔ صاحب خانہ نے مجھے زبردستی کھانا کھلایا ۔ دیکھا کہ میزبان میرے والد کے دوست ہیں ۔

تعبیر

قلندر بابا اولیاؒء نے سائل کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے مصیبت سے نجات کی خوشخبری اسے یوں دی …

موٹر سائیکل کی مرمت میں دوست کا جل جانا ، ذہنی توازن کھو بیٹھنا ، حادثہ کے ذمہ دار شخص کی پولیس کو تلاش ،    تمثلات ہیں نفع حاصل کرنے کے ان منصوبوں کے جو قانونی خلاف ورزی کی وجہ سے بری طرح ناکام ہوگئے ہیں ۔

دوست کا بغلگیر ہو کر کندھے پر کاٹنا نادان لوگوں کے تعاون کی نشاندہی کرتا ہے ، پولیس کا چھڑانا پریشانی کے بعد نجات ملنے کی علامت ہے ۔ ایک فرد کا کھانا کھانے پر مجبور کرنا نتیجہ کی طرح اشارہ ہے ۔ غیب سے رہنمائی ہوگی اور کوئی مدد دینے والا مل جائے گا ۔

Leave a Reply