زمرہ جات: تزکرہ قلندر بابا اولیاءؒ - یاد عظیمؒ - یادداشت

محترم سلام عارف (خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے صاحبزادے )

بحیثیت ایک بزرگ ، سرپرست میں نے انہیں بہت زیادہ شفیق اور بہت زیادہ مہربان پایا۔ جتنا عرصہ میری ان کے ساتھ قربت رہی ہے ، میں نے ایسی کوئی بات نہیں دیکھی جس میں بچوں کی دل آزاری کا کوئی نکتہ ہو۔ انہوں نے بچوں کی خوشی کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ اور کبھی بھی بحیثیت ایک بزرگ کے یہ برداشت نہیں کیا کہ ہمیں کوئی کسی قسم کی سخت بات کہہ دیں۔
بابا صاحب طبعاً بہت خاموشی پسند واقع ہوئے تھے۔ کسی قسم کا شور شرابہ نہ ہو ، سکون پسند انسان ہونے کا علاوہ ایک روحانی انسان کے حوالے سے بھی خاموشی کا ہونا بہت ضروری تھا۔
جب ہم بہن بھائی حیدری ان کے گھر جایا کرتے تھے تو ان کے کمرے میں جہاں ان کی نشست تھی۔ اس نشست کے برابر میں ایک تخت پر لحاف رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ ہم ان لحافوں میں سے کچھ نیچے زمین پر گرا دیتے تھے اور اس طرح لحافوں کی دو تہیں بن جاتی تھیں۔ ایک چھوٹی تہہ اور ایک بڑی تہہ ہم ان تہوں کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے تھے اور چھوٹی تہہ سے بڑی تہہ پر چڑھ کر نیچے کودتے تھے۔ اس طرح کمرے میں خوب شور ہوتا۔
ان کی شخصیت کا جو رعب و دبدبہ تھا۔ اس کی وجہ سے ان کے سامنے کوئی آدمی زور سے بولنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اور جب ہم کودتے تھے تو شور ہوتا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ بابا صاحب کے پاس کوئی بیٹھا ہوا تھا تو وہ ہمیں ڈانٹ دیتا کہ شور مت کرو ، باہر جا کر کھیلو۔
تو اکثر ایسا ہوتا کہ جب کسی نے ہمیں ڈانٹا تو بابا صاحب ان سے فرماتے کہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں۔ آپ بچوں کی وجہ سے پریشان مت ہوں اور انہیں یہیں کھیلنے دیں جس طرح یہ کر رہے ہیں اسی طرح کرنے دیں۔
ایک دفعہ میں ابّا کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ وہاں کمرے میں ان کے صاحبزادے آفتاب بھائی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ یاد رہے ان کا انتقال ہوچکا تھا۔ اس تصویر پر ایک ہار لٹکا ہوا تھا۔ مجھے وہ بہت اچھا لگا۔ میں نے بابا صاحب سے کہا کہ مجھے بھی ایسا ہار چاہئیے۔
تو بابا صاحب نے علی حسن صاحب کو بلوایا اور کہا کہ یہ ہار پرانا ہے اور اس کے لئے مناسب نہیں ہے۔آپ گھر جائیں اسے اپنے ساتھ لے جائیے۔ اور اس کو ہار دلا کر گھر چھوڑ دیجئے گا۔ علی حسن صاحب نے فوراً ان ہدایات پر عمل کیا۔ مجھے مارکیٹ لے جا کر ہار خرید وایا ، پیکٹ بنوا کر مجھے گھر چھوڑا۔
انہیں میری اس خواہش سے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی اس بات کا مجھے اندازہ نہیں لیکن میرے دل میں جو خواہش ابھری تھی اس کا احترام بابا صاحبؒ کی نظر میں کیا تھا اس کا مجھے اندازہ ہوا۔ میری نظر میں ان کی حیثیت ایک بزرگ کی ہے۔ ایک ایسے بزرگ کی کہ ان سے جو کچھ فرمائش کی جائے وہ پوری کردیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے بابا صاحبؒ سے کوئی کام کہا ہو اور وہ نہ ہوا ہو۔
میں نے ان کے مزاج میں کبھی اونچ نیچ نہیں دیکھی۔ بابا صاحبؒ ٹائم کے بہت پابند تھے۔ اگر کہیں جانا ہوتا تو ایک مخصوص وقت ہوتا تھا۔ اور وہ اپنے ٹائم پر تیار ہوجاتے تھے۔

میں نے ان میں خاص طور سے ایک بات محسوس کی اور جس پر انہوں نے خصوصاً خفگی کا اظہار کیا کہ انتظامی امور میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو۔

بہت مہمان نواز تھے۔ انہوں نے اس بات کا بہت احساس رکھا کہ جب بھی کوئی شخص ان سے ملنے کے لئے آئے تو اسے کھانے یا پینے کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جائے۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انہیں ملنے کے لئے لوگ آئے ہوں اور انہیں کھانا یا چائے پیش نہ کی گئی ہو۔ چاہے ایک روز میں جتنے بھی مہمان آجائیں۔
چائے پلانے کے لئے اس وقت جو بھی موجود ہوتا اس سے فرماتے … ” بھئی ان کو چائے پلائیں ” … ، یا کبھی فرماتے ان کے لئے بھی اور میرے لئے بھی لائیں یا انہیں بھی پلائیں اور مجھے بھی پلائیں۔ جب بابا صاحب جذب کی کیفیت میں ہوتے تو اس وقت وہاں موجود افراد آنے والے مہمانوں سے چائے وغیرہ کا پوچھ لیا کرتے تھے۔ یعنی بابا صاحب نے عقیدت مندوں کے مزاج میں یہ بات شامل کردی تھی کہ مہمان داری کے اصول فراموش نہ ہوں۔

بابا صاحب بہت کم گو تھے۔ صرف اتنی بات کرتے جو سامنے والے کی ضرورت کے مطابق ہو۔ میں نے انہیں زیادہ بات کرتے نہیں دیکھا۔ جب میں ان کے کمرے میں جاتا تو ایک غیر معمولی کیفیت کا احساس ہوتا جیسے اس کمرے کی ہر چیز بول رہی ہے۔اس سکوت میں پتہ نہیں کتنے سوال ہیں اور کتنے جواب ہیں۔
کوئی آدمی آتا تھا اپنی غرض سے آتا تھا۔ وہ اس ماحول میں اپنی کیفیت کا کچھ اظہار نہیں کر رہا ہے اور نظر آرہا ہے کہ وہ مطمئن ہے۔ ایسا لگتا کہ وہ خاموشی میں سوال کر رہا ہے ، خاموشی میں جواب مل رہا ہے۔
صاحب پلک جھپکائے بغیر ایک سمت میں بہت دیر تک دیکھتے رہتے تھے۔ عموماً ان کی نظریں کھلے دروازے کی طرف ہوتی تھیں۔ بابا صاحب اس طرح نشست اختیار فرماتے تھے کہ لوگوں کو یہ احساس نہ ہو کہ آپ انہیں نظر انداز کر رہے ہیں۔ 1D ،1/7 میں تخت پر مراقبہ کی نشست میں بیٹھتے تھے اور حیدری کے مکان میں پلنگ پر اس طرح بیٹھتے تھے کہ جیسے ابھی اٹھیں گے۔ یعنی دونوں ٹانگیں لٹکا کر بیٹھتے تھے۔ جب ایک ہی نشست میں تھک جاتے تھے تو گاؤ تکیہ کا سہارا لے لیتے تھے۔

جب ان کا وصال ہوا تو میری عمر سترہ سال تھی کافی دیر تک تو یقین ہی نہیں آیا کہ اس طرح بھی ہوسکتا ہے۔ کافی پریشانی اور مایوسی کی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ پھر محسوس ہوا جیسے بابا صاحب نے توجہ کی ہو۔ تصرف کیا ہو اور اس مایوسی اور پریشانی کی کیفیت پر سکون و اطمینان کی کیفیت غالب آگئی۔ باقاعدہ احساس ہوا کہ بابا صاحب میرے ساتھ ہیں۔ میری زندگی میں ان کے وصال سے لے کر اب تک ایسے بےشمار واقعات ہیں کہ جن سے میرا یقین پختہ ہوا کہ بابا صاحب ہماری طرف توجہ کرتے ہیں۔

مصنف : شہزاد احمد قریشی

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۷ِِ

اس سلسلے کے تمام مضامین :

یاد عظیمؒ