زمرہ جات: حکایت

پیر صاحب

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب بیان کرتے ہیں …

حضور قلندر بابا اولیاؒء نے مجھے ایک واقعہ سنایا تھا کہ …

ایک پیر صاحب تھے ان کے ایک دوست تھے ، جن کا انتقال ہوگیا۔

کچھ عرصہ بعد پیر صاحب کو اپنے دوست کے بچوں کا خیال آیا کہ چلو ان سے ملا جائے۔ تو وہ چھوٹے بیٹے کے پاس گئے۔ جب چھوٹے لڑکے سے ملاقات کی تو بہت گرم جوشی سے ملے اور اپنے گھر لے گئے۔ان کے گھر میں بہت تنگدستی اور عسرت تھی۔ خیر پیر صاحب نے وہاں قیام کیا اور رات کو ان سے پوچھا کہ تم کیا کام کرتے ہو۔ تو چھوٹے لڑکے نے بتایا کہ والد صاحب نے بہت سمجھایا کہ پڑھ لکھ لو لیکن میں نے کوئی توجہ نہ دی بلکہ برے لوگوں کی صحبت میں وقت گزارا۔ اب میں چڑی مار ہوں۔

پیر صاحب بولے کہ اچھا صبح ہم تمہارے ساتھ چلیں گے۔ لڑکے نے کہا کہ حضور آپ میرے والد صاحب کے پیر صاحب ہیں۔ آپ کہاں جائیں گے۔ آپ یہاں قیام کریں۔ میں جلدی آجاؤں گا لیکن پیر صاحب نہ مانے اور بولے کہ نہیں میں تو ضرور آپ کے ساتھ جاؤں گا۔صبح کو وہ پیر صاحب کو بھی ساتھ لے گئے۔ جال لگا دیا۔ بہت چڑیاں ، طوطے اور پرندے آئے لیکن جب بھی لڑکا جال کھینچنے لگتا تو پیر صاحب بولتے نہیں رہنے دو۔ وہ جو دانہ تھا پرندے سب چگ گئے۔ شام کو خالی ہاتھ واپس آگئے۔کچھ عرصہ یونہی چلتا رہا ، جال لگایا جاتا لیکن پرندوں کو پکڑنے سے پہلے ہی روک دیا جاتا رہا۔ اتنے میں تمام رزق جو جمع تھا ختم ہوگیا۔ اب وہ قرض لے کر اپنی ضروریات پوری کرنے لگے۔ ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ لوگوں نے قرض دینا بند کردیا۔

پیر صاحب سے عرض کیا انہوں نے اپنے پاس سے روپے دے دیئے اور کچھ عرصہ یونہی کام چلتا رہا۔ ایک دن جال لگائے بیٹھے تھے کہ ایک پرندہ آگیا۔ پیر صاحب نے کہا کہ فوراً جال کھینچ لو۔ جال کھینچ لیا۔ پرندہ پکڑ کر دیکھا تو وہ باز تھا۔

پیر صاحب نے لڑکے کو سختی سے تاکید کی کہ باز کو شہر میں اچھے داموں فروخت کرنا۔ اس نے باز فروخت کردیا جس سے حاصل ہونے والی رقم سے ان کے حالات اچھے ہوگئے۔ پھر پیر صاحب نے فرمایا  کہ تیری قسمت یعنی لوح محفوظ میں پرندے پکڑنا لکھا تھا۔ چڑی بھی ایک پرندہ ہے اور باز بھی ایک پرندہ۔ دونوں میں کیا فرق بس تو باز ہی پکڑا کر۔

 

اس کے بعد بڑے لڑکے کے پاس پیر صاحب چلے گئے۔ وہ بھی بڑی گرم جوشی سے ملا ، اپنے گھر لے گیا۔ اس سے حال احوال پوچھا اس نے کہا کہ حالات بڑے اچھے ہیں۔ پیر صاحب نے پوچھا آپ کیا کام کرتے ہیں ، کہا کہ میں سرکاری اصطبل میں گھوڑوں کی خدمت پر مامور ہوں۔ ایک رات انہوں نے لڑکے کو بلایا اور کہا بھئی آپ ملازمت چھوڑ دیں۔ لڑکے نے کہا جی پھر کیا کریں گے۔ پھر سوچا والد صاحب کے پیر صاحب  ہیں اس لئے ادب کی خاطر آخر کار انہوں نے وہاں سے استفعیٰ دے دیا۔ لوگوں نے کہا بھئی خوب ترقی ہوئی ہے سرکاری ملازمت ہے آپ چھوڑ رہے ہیں۔الغرض ایک دن پیر صاحب نے کہا دلہن کو بلاؤ اس کے زیورات لے کر کہا کہ انہیں بیچ کر اس سے اعلیٰ نسل کا گھوڑے کا بچہ خرید لاؤ۔ وہ خرید لایا۔ پیر صاحب نے کہا کہ اب اس کی خوب خدمت کرو۔  اس نے خوب کھلایا پلایا۔ گھوڑا اچھا خاصہ صحت مند اور جوان ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اب اسے بازار لے جا کر اچھے داموں فروخت کرو۔ گھوڑا اچھے داموں فروخت ہوگیا۔ پیر صاحب نے کہا کہ اس رقم سے دوسرے دو یا تین گھوڑے آجائیں گے لے آؤ۔

اسی طرح ان سب کی خدمت کرو اور بیچو پھر پیر صاحب فرمانے لگے کہ تیرا رزق اگر گھوڑوں میں ہی تھا تو کیوں نہ گھوڑوں کا سوداگر بن ، گھوڑوں کا ملازم ہی کیوں۔ اس طرح وہ گھوڑوں کا سوداگر بن گیا۔

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : خطبات لاہورِِ

اس سلسلے کے تمام مضامین :

قلندر بابا اولیاؒء کی مجلس