زمرہ جات: حکایت - مزاح

جعلی پیر

کسی بستی میں ایک بڑی خانقاہ تھی۔ دسیوں دیگیں پکتیں اور سینکڑوں افراد لنگر کھاتے۔ قریب ہی ایک نوجوان رہتا تھا۔ والدین فوت ہوچکے تھے۔ روزگار ملتا نہ تھا۔ کھانے کے بھی لالے پڑے ہوئے تھے۔ ایک روز اس کے دل میں آئی کہ چلو پیر صاحب ہی کے نیاز حاصل کرلیں۔ شاید قسمت پلٹ جائے۔

چنانچہ ایک روز وہ خانقاہ کے اندر داخل ہوا اور پیر صاحب کی محفل میں شریک ہوگیا۔ جب محفل برخاست ہوئی تو وہ بھی باہر آگیا۔ یہ سلسلہ کئی روز چلتا رہا۔ نوجوان محفل میں شریک ضرور ہوتا لیکن بغیر کسی سوال کے واپس آجاتا۔

ایک روز وہ حسب معمول واپس ہورہا تھا تو پیر صاحب نے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ میاں صاحبزادے میں کئی روز سے تمہیں آتا جاتا دیکھ رہا ہوں۔ کیا بات ہے کہ تم کوئی سوال کئے بغیر ہی چلے جاتے ہو۔

پرسش احوال پر اس کے آنسو نکل آئے۔ کافی تسلی کے بعد جب ذرا دم ٹھہرا تو اس نے احوال سنایا کہ جناب کے زیر سایہ رہتا ہوں لیکن تباہ حال ہوں۔ پیر صاحب کو بڑا ترس آیا اور نوجوان سے کہا کہ آج سے تم ہمارے مہمان ہو۔ کھانا پینا ، کپڑا لتہ سب ہمارے ذمہ۔ جب تمہاری طبیعت بحال ہو تو ہمارے پاس آنا ، ہم پھر کچھ کریں گے۔

کچھ عرصے کی بے فکری اور کھانے پینے کی فراوانی سے تو نوجوان کا حلیہ ہی بدل گیا۔ پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کہ حضور حکم فرمائیں۔ پیر صاحب نے نوجوان کو اوپرسے نیچے تک دیکھا تو کہنے لگے ماشاء اللہ بھئی اب تم ایک کام کرو کہ میرے پاس ایک گدھا ہے اس کے اوپر سوار ہو کر تم بڑے پیر صاحب کی زیارت کر آؤ۔ اور اس کو زاد راہ دے کر روانہ کردیا۔

وہ نوجوان گدھے پر بیٹھ کر منزل پر منزل مارتا چلا جارہا تھا کہ ایک جگہ گدھا بیمار ہو کر مر گیا۔ نوجوان بہت پریشان ہوا کہ پیدل بڑے پیر صاحب کے پاس کیسے پہنچوں گا اور یہ گدھا جو پیر صاحب نے دیا تھا اس کو سڑنے اور چیل کوؤں کو نوچنے کے لئے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ بڑی بے حرمتی ہوگی۔ چنانچہ ایک گڑھا کھود کر گدھے کو دفن کردیا۔

اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ اسی شش و پنج میں کئی دن گزر گئے۔ شاہراہ پر تو بیٹھا ہی تھا۔ جب ادھر سے کوئی قافلہ گزرتا کچھ مدد کردیتا۔ اپنے پیر صاحب کے عطیہ کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اسی شش و پنج میں ایک قافلہ ادھر سے گزرا تو اس نے تباہ حال نوجوان کی مدد کردی۔ اب تو یہ سلسلہ چل پڑا اور اس کی آمدنی ہوتی رہی۔ آہستہ آہستہ اس نے گرمی ، سردی اور برسات کے سخت موسموں سے بچنے کے لئے جھونپڑی ڈال لی۔ قریب ہی ایک گاؤں تھا۔ وہاں کے لوگوں نے پینے کے پانی کا انتظام کردیا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور تین چار سال میں وہ جھونپڑی ایک بڑی خانقاہ میں تبدیل ہوگئی۔

اب ادھر کی سنیئے ، پیر صاحب کی پیری مندی پڑگئی۔ آمدنی کم ہوگئی تو انہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ بڑے پیر صاحب کی زیارت کو جا رہے ہیں۔ وہ سفر کرتے کرتے جب اس جگہ پہنچے جہاں نوجوان نے خانقاہ بنائی تھی تو پیر صاحب نے بھی وہیں پڑاؤ ڈال دیا۔ رات کو کھانے سے فارغ ہو کر کہنے لگے چلو بھائی مزار کے متولی کے نیاز حاصل کرلیں۔ ابھی وہ حجرہ خاص میں داخل ہی ہوئے تھے کہ مسند نشین ایک دم ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔ پیر صاحب بہت حیران ہوئے۔ پوچھا حضرت آپ مجھے کیوں گنہگار کر رہے ہیں۔ لیکن وہ نوجوان یوں ہی کھڑا رہا تو پیر صاحب نے پوچھا کہ کچھ تو بتائیے کہ ماجرا کیا ہے۔

نوجوان گویا ہوا کہ حضور نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں وہی شخص ہوں جسے آپ نے اپنا گدھا دے کر بڑے پیر صاحب کی زیارت کو بھیجا تھا۔

اچھا تو پھر کیا ہوا ؟ پیر صاحب نے پوچھا۔

ہوا یوں کہ آپ کا وہ گدھا بیمار ہوکر مر گیا۔ مجھے یہ گوارا نہ ہوا کہ آپ کے عطیہ کی بے حرمتی ہو ، اسے بصد احترام دفن کر دیا اور اس کی قبر پر بیٹھ گیا تو اللہ نے یہ دن دکھایا۔

 

پیر صاحب بہت خوش ہوئے ، نوجوان کو گلے لگا کر خوب خوب پیار کیا اور کہا بیٹا تو میرا صحیح جانشین ہے۔ میں بھی اس گدھے کی ماں کی قبر پر خانقاہ بنا کر کام چلا رہا تھا۔

مصنف : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۷

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : قلندر بابا اولیاؒء کی مجلس ۔ روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۷ِِ

اس سلسلے کے تمام مضامین :

قلندر بابا اولیاؒء کی مجلس