زمرہ جات: حکایت - مزاح

ملک الموت

زمانہ گزرا کہ ایک آدم زاد اتنی عمر کو پہنچ گئے کہ ان کا دنیا میں کوئی نہیں رہا۔ گزر بسر کے لئے جنگل سے لکڑیاں توڑ کر فروخت کرتے تھے۔ ایک روز زیادہ لکڑیاں جمع کرکے گٹھر باندھ تو لیا لیکن اٹھاتے وقت ہاتھوں میں لرزہ آگیا۔ خون پانی بن کر آنکھوں سے بہہ نکلا۔

بڑی حسرت کے ساتھ آہ بھری اور بولے کہ مجھ سے تو ملک الموت بھی روٹھ گیا ہے۔ اس کو بھی میرے حال پر رحم نہیں آتا۔میں اب تک کیوں زندہ ہوں۔ میرے سب مر کھپ گئے۔ مجھے موت کیوں نہیں آجاتی۔

 

ابھی لمحہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک خوبصورت نوجوان سیدھی طرف آ کھڑا ہوا۔ سلام کیا اور پوچھا بزرگوار میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔

بزرگ نے پوچھا تم کون ہو ؟

نوجوان بولا میں ملک الموت ہوں۔ ابھی آپ نے یاد کیا تھا۔ سو حاضر ہوگیا ہوں خدمت بتائیں۔

 

بزرگ فوراً بولے اس وقت تو خدمت یہ ہے کہ تم لکڑی کا یہ گٹھا اٹھا کر میرے سر پر رکھ دو۔

مصنف : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۷

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : قلندر بابا اولیاؒء کی مجلس

اس سلسلے کے تمام مضامین :

قلندر بابا اولیاؒء کی مجلس