نفی اثبات
مندرجہ ذیل مضمون احمد جمال عظیمی صاحب نے بعنوان ’نفی اثبات‘ سے جنوری ۱۹۹۷ کے روحانی ڈائجسٹ میں تحریر کیا۔
احمد جمال کا شمار ایسے افراد میں ہوتا ہے جنہیں حضور قلندر بابا اولیاؒء کی مجالس میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ایسے خوش نصیب لمحات میں انہوں نے جو علم کے موتی چنے وہ قارئین کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں۔
اثبات کی نفی نفی ، نفی کا اثبات نفی ، نفی کی نفی اثبات ، اندھیرے کے نفی روشنی ، روشنی کی نفی اندھیرا ، صحت کی نفی بیماری ، بیماری کی نفی صحت۔
غرض کہ زندگی کے معاملات کے بے شمار رخ ہیں۔ ہر رخ ایک اکائی unit ہے۔ ہر اکائی کے دو رخ ہیں۔ ایک سامنے اور دوسرا پس پردہ۔ اس اکائی کی ایک اور جہت ہے وہ بھی دوہری ہے۔ ایک جہت ہے نقش اور دوسری جہت حرکت۔ حرکت کی بھی دو حیثیتیں ہیں ، ایک محوری اور دوسری طولانی۔
انسان اپنی محوری حرکت میں ” تقویم احسن ” ہے اور طولانی گردش کے سفر دنیا میں ” مردود اسفل سافلین ” ہے۔ آغاز سفر جس نقطہ سے ہوا ہے طولانی گردش کا اختتام بھی وہیں ہوگا۔ لیکن اس کا معاملہ اس بات پر ہوگا کہ سفر دنیا کے دور اختیار میں اس نے جنت کے منفی طرز عمل .. نافرمانی .. کی نفی کی یا نہیں۔
اﷲ تعا لیٰ نہایت ہی مہربان ، بے پایاں محبت کرنے والے ہیں۔ انسانوں پر آپ نے سب سے بڑا کرم اور احسان اپنے محبوب اور رحمتہ للعالمین صلّ اللہ علیہ وسلّم کے ذریعہ ہمارے اوپر کیا اور آپ کے ذریعہ وہ تمام فارمولے قرآن مجید کی شکل میں ہمیں تلقین کروائے جس کے ذریعہ ہم جنت میں کئے گئے منفی عمل کی اس دنیا کے دوران سفر ” نفی ” کرکے اثبات میں داخل ہوجائیں۔ یعنی جنت ، عرفان اور حضوری۔
آئیے ذرا ہم اپنے دینی فرائض پر غور کریں۔
١۔ اللہ پر ، اللہ کی کتابوں پر ، فرشتوں پر ، یوم حساب پر ایمان (شک ، وسوسہ ، بے یقینی کی نفی)
٢۔ اعزہ ، اقربا ، یتامیٰ ، مساکین اور مسافروں کی خدمت ارتکاز دولت کی نفی)
٣۔ اقیموالصلوٰة و اٰ توالزکوٰة (دنیاوی معاملات میں ارتکاز کی نفی)
٤۔ صوم ( پرخوری کی نفی)
٥۔ حج (دنیاوی جاہ و حشم کی نفی)
اور یہ تمام ” نفی ” کا مقصد ” ارتکاز الی اللہ ” ہے۔ اس نفی کا مقصد صرف یہ ہے انسان اللہ تعالیٰ کے اس مقام کو پیش نظر رکھے جو واقعی اس کا ہے یعنی اس کو دروبست اپنے تمام معاملات کا کفیل جانے۔ ماسوا اللہ ہر شے کی نفی کی جاسکتی ہے لیکن اللہ ایسی ہستی ہے کہ اس کی نفی نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں اللہ کو نہیں مانتا تو وہ درحقیقت اللہ کا نام لے کر اس کا اثبات کر رہا ہے ساتھ میں اس بات کا اظہار کر رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بہ ایں ہمہ صفت سمجھنے سے قاصر ہے۔
بیماری کی اثبات اور نفی کی دو مثالیں :
ایک مرتبہ جناب اکبر مرزا مرحوم پنڈی سے کراچی آمد کے موقع پر ناظم آباد کے مکان پر ملنے آئے۔ نیچے کی مکان میں اندرونی صحن کے دالان میں ایک پلنگ پر بیٹھے۔ پیر و مرشد سے باتیں کرتے رہے۔
دوران گفتگو وہ وقتاً فوقتاً اپنے جسم کو کھجا لیتے۔ پیر و مرشد الشیخ عظیمی نے کھجانے کا سبب دریافت کیا۔ مرحوم بہت نستعلیق آدمی تھے ، مسکرا کے نیچی نظروں سے کہا کہ خارش کی شکایت ہوگئی ہے۔ عظیمی صاحب نے دم کردیا۔ وہ تو ملاقات کرکے چلے گئے لیکن اب عظیمی صاحب خارش کا شکار ہوگئے۔
حضور قلندر بابا اولیاؒء سے عرض حال کیا تو انہوں نے فرمایا کچھ نہیں ، آپ کے ذہن نے خارش کو نوٹ کرلیا۔
جیسے ہی حضور نے یہ فرمایا پیر و مرشد کے ذہن سے خارش کا خیال نکل گیا اور وہ نارمل ہوگئے یعنی پہلے مرض کا اثبات ہوا اور پھر نفی۔
٦٠ء کی دہائی میں کراچی میں فلو کی وبا پھیلی۔ اثبات کے قانون کے تحت حضور قلندر بابا اولیاؒء کو بھی شدید فلو ہوگیا اور کئی روز تک مرض کی شدید تکالیف کو جھیلا۔ایک روز عصر کے بعد اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خواجہ صاحب پٹرول پمپ سے دہی بڑے لے آئیے۔ دہی بڑے آئے ، خود بھی کھائے اور حاضرین کو بھی کھلائے۔ پہلے مرض کی نفی کی لیکن فلو کو دہی بڑوں کی ضیافت کے ساتھ رخصت کیا۔
بات یہ ہے کہ ہر شے جس کا ہم تذکرہ کرتے ہیں ایک وجود رکھتی ہے اور ہر وجود سے ہم کسی نہ کسی درجہ میں متاثر ہوتے ہیں۔ کسی چیز کا تاثر ہلکا تو کسی تاثر کا رنگ گہرا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے دینی فرائض میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ سے ارتباط رکھو تاکہ کوئی دوسرا نقش ، نقش اول کو متاثر نہ کرسکے۔
مصنف : احمد جمال عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : قلندر بابا اولیاؒء کی مجلس ۔ روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۷ِِ