زمرہ جات: طرز تفہیم

قلندر بابا اولیاؒء کا طرز تفہیم

عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات

تا ز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں

 

ابدال حق قلندر بابا اولیاؒء کی ظاہری و معنوی زندگی موجودہ صدی میں فیضان الہی کا بیش بہا سرمایہ ہے۔ قلب و ذہن اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ آپ کا ذکر مسعود زمانہ ماضی میں کیا جائے یعنی سرمایہ ہے کی جگہ سرمایہ تھی لکھا جائے۔ حضور قلندر بابا اولیاؒء   کا وجود زندگی کی بے چین فریاد کی تسکین ہے۔ اقبال تو جنوں کے سکھائے ہوئے حرف راز کو بیان کرنے کے لئے نفس جبرئیل کا انتظار کرتے رہے اور جب ان کے جنون نے ان کا قلم روک دیا تو انہیں صرف اتنا کہنے کا حوصلہ ہوا،

وہ حرف راز جو مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں

خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں

 

مگر حضور قلندر بابا اولیاؒءنے اس بھری بزم میں اسی راز کو برملا بیان کرکے عقل و خرد کے لئے سامان فکر و نظر مہیا کردیا۔   ایک دفعہ بابا صاحب نے واشگاف انداز میں فرمایا تھا۔

“ہم آپ کا مطلب سمجھ گئے تھے۔ ہم ذہن پڑھتے ہیں الفاظ اور ان کے معنی ہمارے سامنے نہیں ہوتے۔ ہمارے مرشد نے ہمیں خلافت یونہی نہیں دے دی تھی۔”

 

حضور قلندر بابا اولیاؒء اکثر و بیشتر عمومی افہام و تفہیم کے لئے اپنے ساتھ یا اپنے سامنے ہونےوالے واقعات کو بنیاد بنا کر کسی خیال یا نکتہ کو پیش کیا کرتے تھے۔

 

ایک دفعہ بمبئی کے ایک سیٹھ نے بابا تاج الدین ناگپوری کو کمخواب کا قیمتی لباس ازراہ عقیدت پیش کیا۔ بابا صاحب فرماتے ہیں کہ نانا تاج الدین نے سیٹھ کے سامنے اس لباس کو پہن لیا اور کچھ دیر تک اس کی دل جوئی کے لئے کٹیا میں ٹہلتے رہے۔

سیٹھ کے جانے کے بعد بابا تاج الدین نے اس کٹیا کی کچی زمین کی گیلی مٹی کو جو کیچڑ بن گئی تھی ، ہاتھ میں لے کر اس قیمتی لباس پر جگہ جگہ ملنا شروع کردیا اور ساتھ ساتھ یہ کہتے جاتے تھے کہ ..”کیا میں اس کپڑے کی خاطر اپنی زندگی خرچ کردوں۔” حضور قلندر بابا اولیاؒء فرماتے ہیں کہ اسی دن سے میری نظرمیں قیمتی اشیاء کی حیثیت ختم ہوگئی۔

اسی نشست میں حضور قلندر بابا اولیاؒء نے بابا تاج الدین کے جلال کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے پراسرار کلمات کو یوں بیان کیا …” کیا ہم نے جیلیں یوں ہی بنائی ہیں۔”

حضور بابا صاحبؒ نے یہ نہیں بیان کیا اور نہ کسی کو اس مجلس میں یہ سوال کرنے کی جرأت ہوئی کہ حضرت تاج الدین بابا نے یہ کلمات کس واقعاتی پس منظر میں کہے تھے۔

 

ایک نشست میں سود کے متعلق ذکر ہوا … بابا صاحبؒ نے فرمایا

“دنیا کی ساری برائی سود کی وجہ سے ہے۔ اگر سود کا خاتمہ نہ ہوا تو دنیا خراب و ختم ہوجائے گی۔ آپ نے مزید فرمایا میرے نزدیک بہترین عمل سود سے اجتناب ہے”۔

 

حضورعلیہ الصلوة والسلام   کی شان والا کا ذکر ان الفاظ میں کیا کہ،

“آپ صلّ اللہ علیہ وسلّم دنیا کے عظیم ترین اور کامل ترین انسان ہیں کہ آپ صلّ اللہ علیہ وسلّم نے دنیا میں سب سے پہلے سود کی حرمت         (حرام قرار دینے) کا اعلان کیا”۔

 

توبہ کے متعلق سوال پر حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا،

“انسان فطرتاً یعنی اپنی پیدائش ہی سے کچھ اچھے کچھ برے اعمال کا تصور لے کر آتا ہے۔ اچھے عمل پر کاربند رہنے سے اس کے دل کو اطمینان رہتا ہے اور اپنی عقیدت کے تحت برے عمل سے بچتا رہتا ہے۔ اگر کوئی کام سہواً سرزد ہوجائے تو دل میں کسک محسوس کرتا ہے پچھتاتا ہے۔ اور اس سے توبہ کرتا ہے کہ یہ نادانستہ غلطی ہوگئی اور توبہ مقبول ہوجاتی ہے تو یہ اللہ کو پسند ہے مگر جب کسی گناہ کو قصداً کیا جائے تو جب تک اس گناہ یا برے کام سے بچنے کا حتمی اقرار نہ کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل بھی نہ کیا جائے تو یہ توبہ قبول نہیں ہوتی”۔

 

حضور قلندر بابا اولیاؒء کے مزاج میں شگفتگی اور بذلہ سنجی کی کمی نہ تھی ، بعض دفعہ ایسے اشعار بھی بےتکلف سنا جاتے تھے کہ حاضرین محفل ادب و احترام میں رہتے ہوئے ان کی داد بھی دیتے تھے اور جواباً بابا صاحب زیر لب مسکراتے تھے ..جیسے

 

جام ہے توبہ شکن توبہ میری جام شکن

سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا

 

اس نے دیوانہ سمجھ کرنہ کیا مجھ سے حجاب

چاک   ہو کر   تو   بڑے   کام   گریباں   آیا

یہ کالی کالی بوتلیں ہیں جو شراب کی

راتیں انہی میں بند ہیں عہد شباب کی

 

نامساعد حالات میں پیش آنے والی مشکلات اور پابندیوں کو صبر اور خوشی سے برداشت کرنے اور ان سے کامیابی سے گزرنے کے لئے دلکش پیرایہ میں اظہار خیال کرتے ہیں۔

 

جس کا مفہوم یہ ہے کہ کم ہمتی اور بے عقلی کے دباؤ میں آکر پیش آنے والی پابندیوں سے فرار ڈھونڈنا دھرے نقصان کا سبب بنتا ہے یعنی ناکامی بھی ہوتی ہے اور نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔

 

قلندر بابا اولیاؒء   فرماتے ہیں،

” اگر کوئی پابندی اس نے ( جو حالات کا شکار ہے ) رضاکارانہ برداشت کی تو اس کا فائدہ اس کو ملتا ہے اور وہ فائدہ اس کا انعام ہے۔لیکن اگر کوئی مجبوراً پابندی برداشت کرتا ہے ( کیونکہ اس سے مفر نہیں ) تو اس کے لئے وہی پابندی سزا ہے۔ غور طلب یہ ہیکہ وہ انعام سے تو انکار کرتا ہے اور سزا کے لئے ہر وقت آمادہ رہتا ہے اور سزا برداشت کرتا ہے۔اس لئے کہ سزا برداشت کرنے کے لئے مجبور ہے۔ اگر وہ طرز فکر میں تبدیلی کردے اور رضاکارانہ پابندی برداشت کرلے تو وہ سزا نہیں رہتی بلکہ انعام بن جاتی ہے۔ یہ وہ بدعقلی ہے جو انسان کو ہمیشہ پریشان رکھتی ہے۔ “

مصنف : شیخ فقیر محمد عظیمی

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۱ِِ

اس سلسلے کے تمام مضامین :

قلندر بابا اولیاؒء کا طرز تفہیم
    No items found