زمرہ جات: تزکرہ قلندر بابا اولیاءؒ - یاد عظیمؒ - یادداشت

زوجہ محترمہ قلندر بابا اولیاؒء

بابا بڑے سیدھے سادھے آدمی تھے – ان میں نمود و نمائش بالکل نہیں تھی – سادگی پسند تھے – فضول خرچ نہیں تھے – ان کے والد صاحب تحصیل میں نوکر تھے – والدہ کا انقال ہوچکا تھا – یہ 6 بہنیں اور 2 بھائی تھے –
بہت اچھے شوہر تھے – بحیثیت والد کے بہت ہی مشفق اور محبت کرنے والے باپ تھے – کبھی بھی انہوں نے نہ بچوں کو مارا اور نہ گھرکی دی – سب سے کہتے تھے کہ بچوں کو مارو نہیں ، پیار سے کام لو – بچوں سے جھوٹ مت بولو – نہ بڑے جھوٹ بولیں نہ بچہ جھوٹ بولے –
میں اپنی بڑی لڑکی سے عموماً کہا کرتی تھی کہ روبینہ .. میں تجھے یہ چیز دوں گی – میرا یہ کام کردے تو بابا صاحبؒ فوراً بولتے کہ یہ جھوٹ بولا ہے –
کھانے میں کوئی خاص چیز پسند نہیں تھی ، سب کچھ کھا لیا کرتے تھے –
فوج کی ملازمت کے حوالے سے اماں جی نے بتایا کہ دہلی میں 4 مہینے کی ٹریننگ کے بعد 300 آدمیوں کی نفری کے ہمراہ بمبئی گئے اور وہاں سے پونا گئے – ایک دفعہ آرمی میں Duty کے سلسلے میں کولمبو گئے –
ایک دن اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں ایک گولا آکر گرا – اس وقت بابا صاحب نے جو حفاظتی ٹوپی سر پر لی ہوئی تھی اس میں جو آنکھوں کی حفاظت کے لئے شیشہ تھا وہ دھماکے کی شدت سے ٹوٹ گیا اور کافی سارا دھواں مٹی سمیت سانس کے ذریعے اندر چلا گیا – اور پسلیاں اندر دھنس گئیں – بہت تکلیف ہوئی ، زخمی بھی ہوگئے –
آخر عمر تک ٹانگوں پر ان زخموں کے نشان موجود تھے – انہیں ہسپتال میں داخل کردیا گیا – نیند کے انجکشن وغیرہ لگائے گئے – ہمارے پاس ان کی کوئی خبر ہی نہیں تھی – دو ماہ سے ان کا کوئی خط ہی نہیں آیا تھا –
خیر … ہسپتال سے فارغ ہوتے وقت ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ پہاڑی علاقے میں چلے جائیں تاکہ مکمل صحت مند ہوجائیں – انہوں نے کہا … ” نہیں میں گھر جاؤں گا ” .. ڈاکٹرز کہنے لگے کہ گھر جاؤ گے تو مر جاؤ گے – انہوں نے جواب میں کہا کہ … ” میں نہیں مرتا ” … – دہلی میں آئے ، دہلی میں میری والدہ اور ان کی بہن کا گھر تھا -ان کے والد صاحب بہت ہی شریف النفس اور شفقت کرنے والی شخصیت کےحامل تھے –
انہوں نے بڑی شفقت اور توجہ کے ساتھ علاج کرایا اور تیمار داری کی – تکلیف کے باعث وہ کروٹ نہیں لے سکتے تھے – سارا دن کچھ نہ کچھ دوائی ملتی رہتی تھی – صحت مند ہونے کے بعد واپس اپنی ملازمت پر چلے گئے – جاپان کی جنگ میں بھیجنے کی بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میرے والد بوڑھے ہیں – پہلے میں ان سے پوچھ لوں –
اپنے والد صاحب کا بہت ادب کیا کرتے تھے – ان کے سامنے بیٹھ کر بولا بھی نہیں کرتے تھے – انہوں نے شاعری کی ایک کتاب بھی لکھی اور اس کا مسودہ انہوں نے ایک شخص کو کتابت کے لئے دیا کہ اس کی کتابت کروا کر لے آئیں لیکن وہ اس سے گم ہوگیا اور اس طرح وہ شاعری منظر عام پر نہ آسکی –
فرائض کی ادائیگی کے معاملے میں بابا صاحبؒ بہت پابند تھے – اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے کہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو – ان کے ڈرائیور کی دیگر ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ وہ جمیل صاحب ( بابا صاحبؒ کے داماد ) کو گھر لایا کرتا تھا –
ایک روز شمشاد ( بابا صاحبؒ کے صاحبزادے ) نے ڈرائیور سے گاڑی مانگی اور گاڑی لے کر چلا گیا … اور ڈرائیور جمیل صاحب کو لانا بھول گیا – انہوں نے پوچھا کہ جمیل کہاں ہے ؟ ڈرائیور نے کہا بھائی شمشاد نے گاڑی مانگی تھی اس لئے میں جمیل صاحب کو نہیں لا سکا – بابا صاحبؒ نے بہت خفگی کا اظہار کیا کہ تم نے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کیوں کی –
کئی سال تک بابا صاحبؒ ، خواجہ صاحب ( خانوادہ سلسلہ عظیمیہ ) کے ہاں رہے – اس دوران ان کی روٹین تھی کہ جمعہ کی شام کو آتے اور اتوار کی شام چلے جاتے – ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ اپنے گھر میں رہیں تو انہوں نے کہا کہ …” فقیر کو جہاں کا حکم ہوتا ہے ، فقیر وہاں رہتا ہے – ”

مصنف : شہزاد احمد قریشی

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۷ِِ

اس سلسلے کے تمام مضامین :

یاد عظیمؒ