عالی مرتب بادشاہ
مندرجہ ذیل مضمون نسیم احمد صاحب نے بعنوان ’عالی مرتب بادشاہ‘ سے تحریر کیا۔
8 اگست 1978ء کی وہ مبارک گھڑی مجھ کو آج بھی یاد ہے جب میرے آقا و مولا حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے مجھ سے فرمایا کہ آئیے آج آپ کو حضور قلندر بابا اولیاؒء سے ملوائیں۔ میں بصد شوق تیار ہوگیا اور ہم حضور قلندر بابا اولیاؒء کے آستانے کی طرف روانہ ہوئے۔
میں راستے بھر اپنے ذہن میں طرح طرح کے تصور قائم کرتا رہا کہ قلندر بابا ایسے ہوں گے ان کی اتنی بڑی داڑھی ہوگی۔ اس لئے کہ بچپن ہی سے ہمارے ذہن میں یہ بات تھی کہ بزرگ لوگ بہت موٹے ہوتے ہیں جتنی بڑی ان کی داڑھی ہوتی ہے اتنے ہی بزرگ ہوتے ہیں۔
غرض یہ کہ قصہ مختصر ہم حضور قلندر بابا اولیاؒء کے آستانے پہنچے۔وہاں پہنچ کر میرے ذہن کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ میرے تصور کے بالکل برعکس دبلے پتلے ، نورانی چہرہ سفید مگر چھوٹی داڑھی۔
ایک شاہانہ انداز سے پلنگ کے اوپر میرے حضور قلندر بابا اولیاؒء جلوہ افروز تھے۔ چہرے سے بےپناہ نرمی اور شفقت ٹپکتی تھی۔ میرے پیر و مرشد نے فرمایا کہ حضور یہ ہی ہیں ہمارے نسیم صاحب۔ حضور قلندر بابا اولیاؒء نے انتہائی پیار بھری مسکراہٹ سے مجھے دیکھا اور نہایت شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور دعا فرمائی۔ آپ کی مسکراہٹ اتنی حسین اور پرشفیق تھی کہ وہ ہمیشہ کے لئے میرے ذہن میں نقش ہوگئی۔ میں آج بھی گاہے گاہے اس مسکراہٹ کے تصور سے ان کے پیار کا رس نچوڑتا رہتا ہوں۔
میرے بابا جی تو اندر چلے گئے اماں جی سے ملنے اور قلندر بابا کے حضور میں اکیلا رہ گیا۔ میں نے حضور سے سوال کیا کہ تصوف کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے قدرے توقف کے بعد فرمایا … ” تصوف دراصل نور باطن ہے یعنی ایسا خالص ضمیر جس میں آلائش قطعاً نہ ہو … “۔
حضور قلندر بابا اولیاؒء کے اس فرمان پر جب غور کیا تو اللہ کی طرف سے جو رہنمائی حاصل ہوئی وہ یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر نور کا ایک نقطہ ہوتا ہے جو نوع انسانی کے لئے مشعل راہ ہے۔ لیکن جب ہم دنیا کے اندر مستغرق ہوجاتے ہیں اور دنیا کی آلائشیں اپنے اندر بھرنا شروع کرتے ہیں تو یہ آلائشیں اس نقطہ نور کے سامنے ایک دبیز پردے کی شکل اختیار کرلیتی ہیں چونکہ آلائش نور کے اندر شامل نہیں ہوسکتی اس لئے نور اپنی جگہ برقرار رہتا ہے اور برابر رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن ہم صحیح رہنمائی حاصل نہیں کرپاتے کیونکہ ہماری سوچ اور ہماری فکر تک میں یہ آلائش شامل ہوچکی ہوتی ہے اس لئے ضمیر کی رہنمائی ہم تک اس آلائش میں سے آلودہ ہوکر پہنچتی ہے نتیجتاً ہم زندگی بھر بھٹکتے رہتے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں حضور قلندر بابا اولیاؒء نے فرمایا کہ … ” انسان کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ وہ پیچھے پلٹ پلٹ کر دیکھتا رہتا ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ اللہ تعالیٰ نے آنکھیں اس کی پیشانی پر سامنے کی طرف کیوں دی ہیں۔ اگر پیچھے دیکھنا مقصود ہوتا تو اللہ کے لئے کیا مشکل تھا کہ وہ آنکھیں سر کے پچھلے حصے پر ہی لگا دیتے”۔
حضور قلندر بابا اولیاؒء کے اس فرمان کی وسعتیں اتنی ہیں کہ انہیں چند اوراق میں نہیں سمیٹا جاسکتا۔ مختصراً یہ کہ ہمارے سامنے تاریخ بکھری پڑی ہے۔ تمام انبیاء متقدمین جب تشریف لائے اور قوموں کو ہدایت دی تو سب نے پلٹ کر یہی جواب دیا کہ ہم آپ کی بات کیسے مان لیں جبکہ ہمارے بڑوں نے اس کے برعکس کہا اور کیا ہے۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ وہ پیچھے پلٹ کر اپنے بزرگوں کی ہی نقش پا دیکھتے رہے انہوں نے اپنے سامنے سچائی کے اس پیکر کو نہیں دیکھا اس کی بزرگی اس کے اعمال کو نہیں دیکھا۔ نتیجتاً وہ خسارے میں رہے۔ لیکن جنہوں نے ماضی میں دیکھنے کے بجائے اپنے آپ کو حال سے منسلک کرلیا وہ فائدے میں رہے۔
میں ضمناً اس بات کا تذکرہ کرتا چلوں کہ مجھے پامسٹری کا بہت شوق تھا اور میں نے بےشمار ہاتھ دیکھے تھے لہٰذا حضور کا ہاتھ دیکھنے کی خواہش ایک قدرتی بات تھی۔ لیکن میں یہ گستاخی کیسے کرسکتا تھا۔ میری کسی طور ہمت نہیں پڑی کہ میں اپنی اس خواہش کا اظہار کرسکتا۔
لیکن میں نے دیکھا کہ حضور قلندر باباؒ نے پہلو بدلا اور اپنے دونوں ہاتھ اس انداز سے گود میں رکھ لئے کہ میں انہیں بآسانی پڑھ سکتا تھا۔ میں دور ہی سے اپنے شوق کی تسکین کرتا رہا۔ ایسا ہاتھ میں نے کبھی نہیں دیکھا بلا شک و شبہہ وہ ایک عالی مرتبت شہنشاہ کا ہاتھ تھا ایسا شہنشاہ جس کی حکومت کی حدود ایک حضیرے تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں دماغ کی لکیر ایک مثالی لکیر تھی ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی ، انتہائی گہری۔ ہاتھ میں Mystic کراس اس بات کا اعلان ہے کہ روحانیت کاملیت کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ ہاتھ میں دل کی لکیر کی لمبائی اور ساخت اس بات کا اشارہ ہے کہ دل کسی کے عشق میں گم ہے مدہوش ہے۔
میرا یہ مشاہدہ ہے کہ یہ وصف دراصل عطا ہے اور ایسے لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآ له وسلّم کے ہی نہیں بلکہ اس کی مخلوق کے بھی عاشق ہوتے ہیں۔ یہ لوگ محبت وعشق کا پیکر ہوتے ہیں۔ ان کی محبت سے حجر ، شجر ، چرند ، پرند اور جن و انس سب یکساں طور پر مستفیض ہوتے ہیں۔
مصنف : نسیم احمد
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۲ِِ