محترم شمشاد احمد صاحب : (حضور بابا صاحبؒ کے بڑے صاحبزادے)
جب ابا کو ولایت ملی اس وقت میری عمر کوئی دس گیارہ سال کی تھی ۔ اور ہم اس وقت عثمان آباد میں شو مارکیٹ کے پاس رہا کرتے تھے ۔ ایک دن مجھے پتا چلا کہ ابّا دو تین روز ہوگئے اپنے کمرے میں ہیں ۔ اس دوران وہ کسی سے بات بھی نہیں کر رہے ۔
اس دوران اماں دروازہ کھٹکھٹا کر کھانا یا پانی وغیرہ کمرے میں رکھ دیتی تھیں ۔ ان تمام دنوں میں انہوں نے کمرے میں روشنی بھی نہیں کی ۔ عثمان آباد والے گھر میں اس وقت بجلی نہیں تھی ۔ مٹی کے تیل کی لالٹین استعمال ہوتی تھی ۔ اور لالٹین صاف کرنا میری ذمہ داری تھی ۔ نہ لالٹین کمرے سے باہر آئی اور نہ جلی ۔
چند روز کمرے میں تنہا رہنے کے بعد جب وہ باہر آئے تو ان کے چہرے پر ایک خاص کیفیت نظر آتی تھی ۔ پھر کچھ لوگوں کی آمد و رفت شروع ہوئی جن سے ہم پہلے واقف نہیں تھے ۔ ان لوگوں میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہوتی تھی جو ابّا سے سوال و جواب کیا کرتے تھے ۔
بہت عرصے تک تو ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ ابّا روحانی شخصیت ہیں ۔ ان لوگوں کے ذریعے جو ابّا سے ملنے آیا کرتے تھے ، بہت عرصے کے بعد پتا چلا ۔ ابّا نے ہمیں یہ بات نہیں بتائی ۔ روحانیت میں اتنا اہم مقام حاصل ہونے کے بعد بھی ان کے معمولات یا بول چال میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔
صبح ساڑھے سات بجے ماہنامہ نقاد کے دفتر جو مولوی مسافر خانہ کے پاس تھا ، چلے جاتے اور شام پانچ یا ساڑھے پانچ بجے واپس گھر آتے تھے ۔ گھر سے دفتر تک پیدل جاتے اور آتے تھے ۔ اس کے بعد کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی صاحب کے ساتھ گاڑی میں آئے ۔ جو صاحب بھی گھر چھوڑنے آتے تھے ابّا ان سے باہر ہی گفتگو کرتے تھے ۔ کبھی گھر میں نہیں لائے ۔
بعد میں پتا چلا کہ یہ تو روحانیت پر گفتگو ہوا کرتی تھی ۔ ہم سمجھتے تھے کوئی دوست وغیرہ ہیں ۔انہوں نے اپنی روٹین کو برابر جاری رکھا اور اپنے روحانی معاملات کو رات میں اپنے کمرے میں تنہائی میں کرتے ۔ انہوں نے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ ان میں تبدیلی آرہی ہے ۔
ہمارے گھر کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ ہم اپنے والد سے کوئی فرمائش نہیں کرسکے ۔ ہمارے دادا نے اس طریقے سے ہمیں مصروف کردیا تھا نمازوں کی طرف ، قرآن کی طرف اور پڑھائی کی طرف ۔ اس طرح ہمارے پاس دیگر کھیل کود میں حصہ لینے کا وقت نہیں تھا ۔ اسی وجہ سے ہمارا گھر سے باہر نکلنا نہیں ہوتا تھا ۔ یعنی گھر سے اسکول اور مسجد کا آنا جانا تھا ۔ گھر میں کیرم بورڈ یا لیڈو تھی ۔ آفتاب بھائی ( بڑے بھائی ) کے ساتھ کھیل لیا کرتے تھے ۔
ابّا چیخ کر بولنے کو سخت ناپسند کرتے تھے ۔ ہمارے جاننے والوں میں کچھ عادتاً اونچی آواز میں بولتے تھے تو ابّا فرماتے …” ارے بھئی ، آہستہ بولا کرو .. بلا وجہ کیا بلڈ پریشر ہائی کرنا ۔”
اگر وہ کہتے کہ بھائی صاحب عادت بن گئی ہے ، تو آپؒ کہتے …
” کیا عادت بن گئی ہے ؟ بنا لی ہے ، صحیح کرلو ۔ کیا فائدہ ؟ اتنی زور سے کیوں بولتے ہو ۔ ”
ان کی ایک نصیحت جو مجھے ابھی تک یاد ہے ان کے الفاظ تھے کہ …” آواز کمرے سے باہر نہیں جانی چاہیئے ۔ ”
دوسرے کمرے میں آواز سے کوئی پریشانی نہ ہو ۔ یہ ہمیشہ سے ہی ہم نے دیکھا کہ وہ خود بھی اتنی آواز سے بولتے تھے کہ جو ذہن کو مرتعش نہ کرے ۔ اگر کسی نے ان کے ساتھ غلط بات کی یا غلط رویہ اختیار کیا تو انہوں نے اپنی ناراضگی یا خفگی کا اظہار اپنی آواز سے نہیں کیا ۔ کبھی درشت لہجہ اختیار نہیں کیا۔
اپنی روزمرہ کی چیزوں کو بہت ترتیب اور مقررہ جگہوں پر ہی رکھتے تھے ۔ مثلاً دفتر سے آکر اچکن کو جھاڑ کر ہینگر میں لٹکاتے تھے ۔ اچکن کو کبھی کیل پر نہیں لٹکایا ۔ جوتے اتارنے کے بعد جھاڑ کر برابر رکھتے تھے ۔ جوتوں کو آگے پیچھے یا غیرمتوازن نہیں رکھتے تھے ۔ پتلون کی کس جیب میں چابی ہوتی ہے ، ہاتھ لاشعوری طور پر اس جیب میں جاتا اگر چابی دوسری جیب سے ملتی تو خفگی سے اظہار کرتے کہ بھئی یہاں پرکیسے آگئی چابی ۔
انہوں نے ہمیں سختی سے ہدایت کی تھی کہ اگر کسی کی کوئی بات سامنے آجائے تو اسے بیان نہ کیا جائے ، اور اس سے ذاتی فائدہ نہ اٹھایا جائے ۔
ان کے الفاظ تھے … ” کبھی اللہ کے نام کو بیچنے کی کوشش نہیں کرنا ۔ ”
ایک دفعہ میں اکیلا ابّا کے پاس کمرے میں بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے کوئی خاص بات ، باتیں یا نصیحت کریں ۔ تو انہوں نے کہا کہ … ” کسی کو سینگ نہیں مارنا ” ، میں نے کہا کہ میں سمجھا نہیں ۔
کہنے لگے … ” آدمی دو طرح کے ہوتے ہیں ، ایک وہ جو انسان ہوتے ہیں اور ایک وہ ہوتے ہیں جو لوگوں کو تنگ کرتے ہیں ۔ تنگ کرنے والے جو ہوتے ہیں وہ سینگ مارتے ہیں ۔ جیسے بیل خواہ مخواہ سینگ مارتا ہے اپنی غرض سے غرض رکھو ۔ کسی کے کام میں دخل مت دو ۔ کسی پر مسلط ہونے کی کوشش مت کرنا اور نہ اس کی ٹوہ کہ کوئی کیا کر رہا ہے ۔ ”
جب مجھے کار چلانے کا لائسنس مل گیا تو ابّا کی اجازت ملی کہ اب میں اکیلا گاڑی چلا سکتا ہوں ۔ جب میں پہلی دفعہ اکیلا گاڑی چلانے کے لئے جانے لگا تو انہوں نے کہا کہ غور سے ایک بات سنو ۔
کبھی غصے کی حالت میں گاڑی نہیں چلانا ۔ بالکل ذہن کو ٹھنڈا رکھ کر گاڑی چلانا ۔ اور کچھ بھی ہوجائے گاڑی چلاتے ہوئے غصہ نہیں کرنا اور اگر کبھی غصہ آجائے تو گاڑی روک کر پانی پی لو اور لاحول پڑھ لو ۔ تھوڑی دیر آرام کرلو ۔ ٹہل لو ۔ لیکن غصہ کی حالت میں گاڑی چلانا نہیں ہے۔
ہمارے بڑے بھائی آفتاب بھائی کا ستائیس سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔ اس وقت ابّا 1D ،1/7 میں تھے ۔ میں یہ خبر دینے کے لئے ان کے پاس گیا ۔ میں نے ان کے قریب ہی کھڑے ہوکر آہستہ سے کہا بھائی کا انتقال ہوگیا ہے ۔ صرف اتنے ہی الفاظ تھے اور بس ۔
انہوں نے میری طرف دیکھا اور وہ نظر میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ میں نے دیکھا کہ ان کی دونوں آنکھیں جو پوری طرح روشن تھیں ان کی روشنی اسی وقت ختم ہوگئی ۔ دونوں آنکھوں میں پتلی کی جگہ سفیدی آگئی ۔ اسی وقت سفیدی آگئی ۔ دیر نہیں لگی تھی اس میں ۔ بس انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اچھا تم جاؤ ، میں آجاؤں گا ۔ بالکل نارمل لہجہ تھا اور میں واپس گھر آگیا۔ تقریباً گھنٹہ سوا گھنٹہ کے بعد ابّا بھی گھر پہنچ گئے ۔ بعد میں ان کی دونوں آنکھوں کا آپریشن ہوا تھا ۔ لیکن ان کی آنکھیں نارمل نہیں ہوسکیں ۔ عینک لگ گئی تھی ۔ ان دونوں آنکھوں کو بےنور ہوتے ہوئے میں نے خود دیکھا ہے ۔ آفتاب بھائی کی خبر سن کر انہوں نے کسی قسم کی Feeling حزن یا غم کا بالکل اظہار نہیں کیا ۔ انہوں نے اس کا بھی اظہار نہیں کیا کہ انہیں نظر نہیں آرہا ہے ۔
بابا صاحبؒ کے وصال کی تفصیلات بتاتے ہوئے شمشاد صاحب نے بتایا کہ … وصال کے چند ماہ پہلے سے ان کی طبیعت خراب رہنا شروع ہوگئی تھی ۔ آہستہ آہستہ چلنا پھرنا پھر اٹھنا بیٹھنا اور پھر کھانا پینا بھی بند ہوگیا ۔ آخری دنوں میں اپنے کمرے تک محدود ہوگئے تھے ۔ نقاہت کے باعث ہاتھوں کی حرکت بھی ختم ہوچکی تھی ۔ ساکت لیٹے رہتے تھے ۔
ستائیس رجب ( صفر ) یا ستائیس جنوری کو شام کو میں اپنی ڈیوٹی سے رات بارہ بجے کے بعد گھر پہنچا ۔ ابّا کے کمرے میں جا کر انہیں دیکھا ۔ انہوں نے آنکھوں کے اشارے سے بتایا کہ ٹھیک ہے ۔ میں اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ پھر رات کو ایک بجے کے قریب ان کے کمرے میں گیا ، کچھ محسوس نہیں ہوا ۔ عام روٹین کی طرح ساکت تھے۔
رات ڈیڑھ بجے کے بعد مجھے بےچینی محسوس ہوئی تو میں ان کے کمرے میں گیا ۔ جب میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو ان کی آنکھوں میں سے زندگی کی روشنی ختم ہوچکی تھی ۔ وقت ختم ہوگیا تھا ۔ میں ان کے قریب گیا ، سانس دیکھا ، دل کی دھڑکن دیکھی ، کلائی سے حرارت دیکھی ۔
جسم ٹھنڈا ہوچکا تھا ۔ میں نے اماں کو بتایا ، پھر بہن کو بتایا ۔ جس نوعیت کی بیماری تھی اس کے لئے ہم ذہنی طور پر تیار تھے ۔ اس لئے اس وقت نارمل رہے ۔ اور یہ ضبط کرنا ضروری بھی تھا کیونکہ تربیت کا یہی تقاضا تھا ۔ ابّا بین کو یا رونے پیٹنے کو ناپسند کرتے تھے۔
مصنف : شہزاد احمد قریشی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۷ِِ