محترم احمد جمال صاحب
یہ 1958ء کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست تھے یوسف خان ترین صاحب۔ ان ہی کے ساتھ میں ایک دفتر میں کام کرتا تھا۔ رہائش بھی قریب قریب ہی تھی۔ ان کا اس زمانے میں بابا صاحبؒ کے ہاں آنا جانا تھا۔انہوں نے ایک دفعہ بابا حضور کا تعارف اس طرح کروایا کہ ہمارے پیر و مرشد بہت بڑے بزرگ ہیں۔ میرے لئے یہ بڑی عجیب بات تھی۔
اس زمانے میں اتوار کی چھٹی ہوا کرتی تھی۔ ایک دفعہ ترین صاحب مجھے ان سے ملوانے لے گئے۔ گرمی کا زمانہ تھا 1D ،1/7 میں دوسری منزل پر جہاں اس وقت ایڈیٹر روحانی ڈائجسٹ کا دفتر ہے۔وہاں لکڑی کے تخت پر حضور بابا صاحبؒ بیٹھے ہوئے تھے۔
تخت بالکل کھرّا تھا یعنی اس پر کوئی چیز نہیں بچھی ہوئی تھی اور غالباً اس وقت تہمد باندھے ہوئے تھے۔ سلام کیا ، ہاتھ ملایا اور بیٹھ گئے۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات میں ، میں نے ایک بات محسوس کی کہ انہوں نے کبھی بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ بہت بڑے آدمی ہیں۔ انہوں نے کبھی اس قسم کا رویہ اختیار نہیں کیا جس میں تقدس ہو۔ شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی تاثر رہا۔
اس زمانے میں آپ بھائی صاحب کہلوایا کرتے تھے۔ بھائی صاحب کہلوانے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے چھوٹے بھائی انہیں بھائی صاحب کہا کرتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی کے ایک دوست تھے وہ بھی اپنے دوست کی وجہ سے بابا حضور کو ” بھائی صاحب ” کہا کرتے تھے۔ چنانچہ اس لئے سب انہیں بھائی صاحب کہا کرتے تھے۔
پھر ڈاکٹر عبدالقادر صاحب جو سہون میں مدفون ہیں انہوں نے بابا حضور کو حضور بھائی صاحب کہنا شروع کیا اس طرح آپ ” حضور بھائی صاحب ” کہلائے جانے لگے۔ ” قلندر بابا اولیاؒء ” تو وصال کے بعد زبان زد عام ہوا۔
سلسلہ عظیمیہ میں بیعت ہونے کے سوال پر احمد جمال صاحب نے بتایا کہ بابا صاحب تو خاندانی طور سے مجھ سے واقف تھے یعنی میرے بزرگوں سے واقف تھے۔ 1958ء کے بعد 1960ء اگست کے آخری ہفتے میں مجھے اندر سے بے چینی محسوس ہوئی میں بابا حضور کے پاس پہنچ گیا اور میں نے بیعت کی درخواست کردی۔ انہوں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ انہیں سبق دے دیجئے۔ انہوں نے خواجہ صاحب کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ سلسلہ آپ نے چلانا ہے۔
اس کے بعد میرا مسلسل 1D ،1/7 میں آنا جانا رہا۔ اس کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں تھا۔ دفتر سے آکر چلے گئے۔ رات کو بیٹھے ہوئے ہیں ، شام کو بیٹھے ہوئے ہیں۔ کبھی دفتر جانے سے پہلے چلے گئے۔ جب بھی فرصت ملی۔اس زمانے میں حضور بابا صاحبؒ جمعہ کی شام کو حیدری چلے جایا کرتے تھے اور پھر اتوار کی شام کو واپس 1D ،1/7 آیا کرتے تھے۔ مراقبہ ہمیشہ انہوں نے خواجہ صاحب سے ہی کروایا۔ ان کی سربراہی میں اس زمانے میں 1D ،1/7 کی تیسری منزل پر مراقبہ ہوتا تھا۔ بابا صاحب سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے۔ آپ کبھی زور سے نہیں ہنسے ، مسکراتے تھے۔
ان کی شخصیت کا ایک ممتاز پہلو یہ بھی تھا کہ عموماً کبھی ایسا ہوا کہ گھر سے سوال لے کر بابا حضور کے پاس گئے۔ ان کے پاس جا کر کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ، کسی نہ کسی بات کے اندر جواب مل جاتا تھا۔
بابا حضورؒ نے اپنی رباعیات مجھ سے لکھوائیں۔ وہ کرتے یہ تھے کہ رباعیات کو تحریر کرنے کے بعد ان کی تصحیح کرتے اور تصحیح کے بعد اس کی Fair Copy مجھ سے کرواتے تھے۔ پھر ان کے ذہن میں خیال آیا ، یہ خواہش بیدار ہوئی کہ ان رباعیات کا تصویر نامہ بنوایا جائے۔ یعنی ان رباعیات کی تصویر کشی کی جائے جس سے ان کا مفہوم واضح ہو۔ مجھے اس وقت کے مشہور مصور آذر زوبی کے پاس بھیجا۔ میں نے ان سے بات کی اور ان رباعیات کی تصویریں بنوائیں۔ پھر انہیں محسن صاحب کے سپرد کیا کہ اس کی کتابت و پرنٹنگ کروائی جائے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ محسن صاحب ٹیکسی پر بیٹھ کر گھر پہنچے اور رباعیات مع تصاویر کے ٹیکسی میں ہی بھول گئے۔ یاد آنے پر فوراً نیچے آئے۔ لیکن ٹیکسی غائب۔
اب جناب اس کی ڈھونڈائی مچی۔ کئی دن تک ایک ٹیکسی پر میں اور محسن صاحب پوری کراچی میں ڈھونڈتے رہے کہ کہیں وہ ٹیکسی ڈرائیور مل جائے۔ لیکن وہ نہ ملنا تھا نہ ملا۔
بابا صاحب کو اس مسودے اور تصاویر کی گمشدگی کا بہت افسوس ہوا لیکن انہوں نے اس کا زیادہ غم نہ کیا۔ ایک دفعہ انہوں نے بتایا کہ ، ” اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا “۔
انہوں نے بہت ہی Balance لائف گزاری ہے۔ ورنہ بابا حضور کے لئے کیا مسئلہ تھا ان رباعیات کا تلاش کرنا یا تخلیق کرنا۔ایک دفعہ ایسا ہوا کہ بہت جذب کی کیفیت میں تھے تو طبیعت ناساز ہوگئی۔ ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ ایک دن اسی کیفیت میں چلتے چلتے دیوار میں سے دوسری طرف نکل گئے۔ جیسے ہی انہیں شعور کا احساس ہوا دیوار تو شعور ہے انہیں جھٹکا لگا اور وہیں گرگئے۔
جب ہم عید کے موقع پر ان سے ملنے جایا کرتے تو وہ عید ملنے کے بعد تمام مہمانوں کو ایک روپے کا بالکل نیا نوٹ بطور عیدی دیا کرتے تھے۔
مصنف : شہزاد احمد قریشی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۷ِِ