محترم رؤف احمد صاحب : (بابا صاحبؒ کے چھوٹے صاحبزادے )
میں نے کبھی ابّا سے ضد نہیں کی۔ وہ بہت ہی شفیق اور پیار کرنے والے تھے۔ بڑے آرام سے سمجھا دیا کرتے تھے اور ہم سمجھ بھی جایا کرتے تھے۔ جب وہ بیرون شہر جاتے تھے تو ہمارے لئے کھلونے وغیرہ لایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ بس لائے تھے۔ ایک دفعہ اڑن طشتری لائے تھے۔
اگر میں ان سے کوئی فرمائش کرتا تو فرماتے .. ” ہاں صحیح ہے ، ٹھیک ہے ، جیسے ہی وقت ہوگا ہوجائے گا۔ ”
انہیں غصہ تو آتا ہی نہیں تھا۔ میں نے دیکھا کہ ان کے پاس ہر مکتبہ فکر کے لوگ آیا کرتے تھے۔ ابّا انہیں مطمئن کردیا کرتے تھے۔ میں نے ایسا نہیں دیکھا کہ کسی فرد کے سوال پر ابّا نے جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا ہو۔ مقابل کی ذہنی سطح کے مطابق تسلی بخش جواب دیا کرتے تھے۔
جب ابّا میرے لئے موٹر سائیکل لے کر آئے تو مجھے موٹر سائیکل چلانا نہیں آتی تھی۔ بہنوئی کے ساتھ لائے تھے۔ موٹر سائیکل جب گھر میں گیٹ سے اندر لائے تو اس وقت ابّا نے مجھ سے کہا تھا کہ دیکھو ہینڈل کی طرف کبھی بھی مت دیکھنا۔ سامنے دیکھنا۔ حالانکہ ہم نے اپنے ہوش میں ابّا کو کوئی سواری چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ پیدل چلتے تھے یا کوئی گاڑی میں گھر چھوڑ دیتا تھا۔
وہ زندگی میں حقیقت پسند تھے۔ جذباتی نہیں تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ … ” اپنا حق لینے کے لئے اگر کسی کو کچھ دینا پڑتا ہے تو وہ اسے دیں۔ اس لئے کہ اگر آپ ابھی نہیں دیں گے تو آپ کو مطلوبہ چیز نہیں ملے گی اور آپ کا جو نقصان ہوجائے گا وہ اس سے بڑا ہوگا۔ ”
ہمارے والد صاحب میں کسی قسم کی توقع یا غرض نہیں تھی۔
مصنف : شہزاد احمد قریشی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۷ِِ