کچھ یادیں کچھ باتیں
مندرجہ ذیل مضمون احمد جمال عظیمی صاحب نے بعنوان ’کچھ باتیں کچھ یادیں‘ سے فروری ۱۹۹۳ کے روحانی ڈائجسٹ میں تحریر کیا۔
انکی نسبت بھی ہے ، نام بھی ، افکار بھی عظیم
گفتار بھی ، اخلاق بھی ، کردار بھی عظیم
روشن روشن راہوں والی سرکار بھی عظیم
شمس ہمارے رہبر ہیں ، دربار بھی عظیم
1958ء کا ذکر ہے دفتر کے ایک ساتھی محترم یوسف علی خان ترین صاحب سے ان کی علالت کے دوران ربط ضبط بڑھا۔ ان کی بیگم صاحبہ نے ایک دن تذکرہ کیا کہ وہ لوگ ایک بڑے بزرگ کے پاس جاتے ہیں۔
ترین صاحب کا مکان ناظم آباد کے بلاک نمبر تین میں تھا۔ قریب ہی ایک اور صاحب عین الدین رضوی رہتے تھے جو ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ ترین صاحب کے گھر میں ان بزرگ کا تذکرہ اکثر ہوا کرتا تھا جن کو وہ بھائی صاحب کہتے تھے۔ مجھے بھی ملنے کا اشتیاق ہوا چنانچہ ایک روز میں بھی ان لوگوں کے ہمراہ ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مجھے زندگی میں پہلے کسی بزرگ کی خدمت میں حاضری کی سعادت نصیب نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ عجیب گو مگو کی حالت تھی کہ پتہ نہیں کیسے ہوں گے اور کیسے نہ ہوں گے۔گرمی کا زمانہ تھا۔ ون ڈی ون سیون کی پہلی منزل پر جہاں اب وقار یوسف عظیمی کا دفتر ہے وہاں دیوار کے پاس ایک لکڑی کے تخت پر جس پر نہ کوئی بستر تھا نہ چادر ، ایک صاحب تشریف فرما تھے۔ میرے ساتھیوں نے عرض سلام کے بعد مصافحہ کیا اور خاتون سلام کرکے ایک طرف بیٹھ گئیں۔
میں نے بھی سلام کیا اور مصافحہ کے بعد سامنے پڑی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ میرا تعارف کرایا گیا۔ سن کے تبسم فرمایا۔ بیگم ترین اپنے ہمراہ پان بنا کر لے گئیں تھیں۔ وہ ڈبیہ میں منتقل کئے۔ پھر آپ نے سب کی فرداً فرداً مزاج پرسی کی اب میں سمجھا کہ آپ ہی بھائی صاحبؒ ہیں۔
بیٹھنے کے بعد میں نے آپؒ کو دیکھا۔ آپ صرف لنگی پہنے ہوئے تھے۔ اوپر کے جسم پر کوئی لباس نہیں تھا۔ مجموعی تاثر ایک عام معمر شخصیت کا تھا۔ نہ کوئی طمطراق ، نہ کوئی تقدس صرف اور صرف محبت اور شفقت کا احساس۔ گفتگو میں دھیما لہجہ اور لبوں پر مسکراہٹ ، چہرہ پر سنجیدگی ، آنکھوں میں سوچ اور فکر کی گہرائی۔
نشست میں انفرادیت تھی۔ دونوں پیروں کی ایڑیاں ران سے لگی ہوئی اور پنڈلیوں کے اوپر گھٹنوں سے نیچے دونوں ہاتھ اس طرح آئے ہوئے کہ دائیں ہاتھ کی پشت کو پکڑا ہوا۔ آپ کو بعد میں بھی ہمیشہ اسی نشست میں بیٹھے دیکھا۔
اس زمانہ میں آپ بیڑی پیتے تھے۔ جب بھی پان یا بیڑی استعمال کرتے حاضرین کو پہلے پیش فرماتے۔ چنانچہ میں نے پان بھی کھایا اور بیڑی بھی پی۔ اتنے میں کھانے کا وقت ہوگیا۔ کھانا آگیا اور ہم سب نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا۔ تیسرے پہر اجازت طلب کرکے ہم لوگ واپس ہوئے۔
اس کے بعد آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا۔ عظیمی صاحب اور بچوں سے مانوس ہوا۔ اگست 1960ء میں غلامی کی درخواست پیش کی۔ قبول فرمائی۔ حضرت خواجہ صاحب سے فرمایا کہ سبق دیدو۔ اس طرح مجھے غلامی کا شرف حاصل ہوا لیکن صورت یہ تھی کہ نہ میں آداب غلامی سے واقف اور نہ غلام سے کسی مشقت کا تقاضہ۔ صرف ذوق و شوق کے جذبے کی تزئیں پر زور۔
بیعت کے بعد ایک خاص تعلق خاطر وجود میں آیا۔ مراقبہ ہمیشہ سے جمعہ کو ہوتا تھا۔ میں نے پہلا مراقبہ 2 ستمبر 1960ء کو کیا۔ اس کے بعد حاضری میں اضافہ ہوا اور حضور بھائی صاحب کے ارشادات سننے ، اوصاف حمیدہ دیکھنے اور ان کے معمولات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔
آپ کی طبیعت میں حد درجہ نفاست اور انتظام تھا۔ سر کے بال اور داڑھی دس پندرہ روز میں ضرور ترشواتے۔ سر کے بال کبھی ایک انچ سے اور داڑھی کے بال نصف انچ سے بڑے نہ دیکھے۔ سر پر نہ کبھی استرا پھروایا اور نہ کبھی زلفیں رکھیں۔
لباس عمدہ مگر سادہ استعمال کرتے تھے۔ قمیض میں کالر نہیں ہوتا تھا۔ پاجامہ چوڑے پائنچہ کا ، موری تقریباً چھ انگل لوٹی ہوئی۔ گرمی میں صرف قمیض پاجامہ میں لیکن سردیوں میں جب کہیں باہر تشریف لے جاتے تو شیروانی اور ٹوپی ضرور پہنتے۔
جوتے ہمیشہ براؤن رنگ کے پہنتے۔ سیاہ رنگ جوتے استعمال نہیں کرتے تھے فرماتے کہ جو آفاقی شعاعیں (Cosmic Rays ) دماغ پر وارد ہوتی ہیں۔وہ جسم میں دور کرتے ہوئے پیروں کے راستے زمین میں جذب ہوجاتی ہیں لیکن اگر سیاہ رنگ جوتے پہنے جائیں تو سیاہ رنگ ان کو جذب کرکے زمین تک نہیں جانے دیتا جس سے جسم اور ذہن کو نقصان ہوتا ہے۔
استعمال کی ہر چیز کی ایک جگہ مقرر تھی۔ شیروانی ، دھل کر آئے ہوئے کپڑے ، بستر پر تکیہ ، پائنتی پر چادر ، تکیہ کے بائیں جانب ٹوپی ، زیر مطالعہ کتاب یا رسالہ ، قلم ، کتابوں کی الماری میں کتابوں کی ترتیب ایسی کہ فلاں خانے میں دائیں طرف تیسری کتاب یا بائیں جانب پانچویں کتاب فلاں مضمون پر ہے نکالو۔
حتیٰ کہ جوتے اتارتے وقت اس التزام سے رکھتے کہ جوتے ایک سوت بھی آگے پیچھے نہ ہوتے۔ پان کھانے کی وجہ سے دانت لال ہوجاتے ، کوئلے سے دانت اچھی طرح صاف کرتے۔ صفائی کے بعد دانت ایسے چمکتے جیسے موتی۔ یہ کام اکثر عثمان آباد کے مکان میں ہوتا۔
بات نہایت واضح اور نرم لہجے میں کرتے۔ مزاح خود بھی فرماتے اور دوسرے کی شگفتہ بات کو پسند فرماتے۔ تبسم فرماتے یا ہنستے لیکن کبھی قہقہہ نہیں لگایا۔ کھانے میں کبھی تکلف نہیں کیا جو سامنے آیا کھا لیا لیکن کبھی اچھے کھانے سے شوق بھی کرتے۔
ارشادات اور واقعات تو بے شمار ہیں جو ذہن میں گردش کررہے ہیں۔ لیکن ان سب کو ترتیب دینا اور بیان کرنا مشکل ہے۔ صرف چند اہم واقعات ہدیہ قارئین کر رہا ہوں۔
ہمارے پیر و مرشد کا نام شمس الدین انصاری ہے۔ حضرت قلندر بابا اولیاء نے ہمارے پیر و مرشد کو خواجہ کا لقب عنایت فرمایا اور ہمیشہ اسی نام سے بلایا اور یاد کیا۔ سب سے پہلے ہمارے پیر و مرشد نے ہی اپنے پیر و مرشد کے نام نامی اسم گرامی ” عظیم ” کی نسبت سے عظیمی لکھا۔
پیر و مرشد کا انصاری ہونا اس طرح بھی مسلم اور معتبر ہے کہ جب آپ کو قلندر بابا اولیاء نے حضورعلیہ الصلوة والسلام کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپؐ نے فرمایا ” اے ابو ایوب انصاری کی بیٹے میں نے تجھے قبول کیا “۔
قلندر بابا اولیاؒء فرمایا کرتے تھے کہ خواجہ صاحب کو میں نے تیار نہ کرنا ہوتا تو دنیا کو میرے روحانی علوم کے بارے میں ہوا بھی نہ لگتی۔
1961ءکے اواخر میں ساری دنیا میں شور برپا ہوا کہ آئندہ سال پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے شاید قیامت ہی آجائے۔ تاریخ انسانی میں ایسی گھڑی کبھی نہ آئی تھی کہ سارے ستارے ایک ہی برج میں ایک قطار میں جمع ہوجائیں۔
ہندوستان میں بڑے بڑے جیوتشی ، جوگی اور پنڈت اس گھڑی کو ٹالنے کے جتن کرنے کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ یورپ کے ممالک میں بھی کافی اضطراب پھیلا۔ لوگ قیامت کی تباہی سے محفوظ رہنے کے لئے پہاڑوں کی کھوئیں تلاش کرنے لگے۔
یہ سارا ہنگامہ 5 فروری 1962ء کے دن سے تعلق رکھتا تھا جب ستاروں کی یہ ترتیب رونما ہونے والی تھی۔ آشنائے راز ہائے کائنات قبلہ حضور بھائی صاحب ( قلندر بابا اولیاؒء ) نے فرمایا کہ تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ اب ہماری کہکشاں ایک نئے کائناتی زون میں داخل ہوگئی ہے جس میں سرخی کا عنصر غالب ہے ، چنانچہ اب ایسے حالات رونما ہوں گے جو اس کرہ ارض کے لئے اجنبی ہیں۔
١٥ شعبان ( شب برأت ) کے بعد قبلہ حضور کی مصروفیات میں بے اندازہ اضافہ ہوجاتا دراصل ١٥ شعبان کو پوری کائنات کا اگلے سال کا بجٹ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جاتا ہے جو پالیسیوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ قبلہ حضور قلندر بابا اولیاء بحیثیت صدرالصدور اپنے حضیرے کا بجٹ پیش فرماتے۔ ہمارے کہکشانی نظام میں ایک ارب سورج ، ایک ارب آباد کرے اور آٹھ ارب غیر آباد کرے ( یہ غیر آباد کرے اور ان کے ذیلی چاند آباد زمینوں کے اسٹور کا کام دیتے ہیں جہاں سے وسائل لہروں کی شکل میں آباد کروں یا زمینوں کی ضرورت کو پورا کرتے رہتے ہیں)
شعبان میں ان پالیسیوں کی تفصیل ( جزئیات ) کا کام شروع ہوجاتا ہے جیسے جیسے یہ پالیسیاں نزول کرتیں تکوین کے صاحبان خدمت پروگراموں کو آخری شکل دیتے ہیں۔ جہاں مشکلات سے دوچار ہوتے وہ قبلہ حضور بھائی صاحب قلندر بابا اولیاء سے رجوع کرتے۔قبلہ فرمایا کرتے کہ چالیس سوالوں کو سننا ، سمجھنا اور فوراً جواب دینا ان کا معمول تھا۔ لیکن جب استفسارات بڑھ جاتے تو آہستہ آہستہ شعور کو سنبھالنا مشکل ہوتا جاتا یہاں تک کہ وہ سوجاتے ہیں اس دوران پنڈلیوں میں اتنی شدید تکلیف ہوتی کہ ان پر اپنی فوجی پیٹیاں کس کر باندھ لیتے۔اس دوران کمرے کا ماحول اس قدر چارج ہوجاتا کہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہماری آنکھیں بند ہونے لگتیں اور ہمیں جھونکے آنے لگتے۔
پیر و مرشد فرماتے ہیں کہ ایسی ہی کیفیت ان پر اس وقت طاری ہوتی جب حضور قبلہ ان کو ” لوح و قلم ” لکھواتے۔ اور اسی قسم کی کیفیت ہم دونوں پر اس وقت طاری ہوتی جب ” لوح و قلم ” کے مسودے کی دوسری کاپی بنانے کے لئے پیر و مرشد بولتے اور میں لکھتا یا میں بولتا اور پیر و مرشد لکھتے۔ اس دوران ہمیں غنودگی ختم کرنے کے لئے بار بار اٹھ کر منہ دھونا پڑتا۔
اپریل 1964ء قبلہ حضور کا بے انداز تکوینی مصروفیات کا زمانہ تھا۔ انتہا یہ کہ معلم کو اجازت نہ تھی کہ بات بھی کرے ( معلم ایسے فرشتے کو کہا جاتا ہے جو حاملین عرش ، گروہ جبرئیل سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے وہ منتخبین کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ علوم سے روشناس کراتا ہے اور بعد میں جب وہ حضرات حضورعلیہ الصلوة والسلام سے علم حاصل کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور سے اپنے حصہ کا خصوصی علم حاصل کرلیتے تو یہی معلم فرشتہ ان حضرات کا کارندہ بن جاتا ہے)۔
13اپریل کو معلم نے اشارہ دیا کہ بڑے صاحبزادے آفتاب میاں حادثہ سے دوچار ہونے والے ہیں۔ آفتاب میاں اگلے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ شکار کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے۔ حضور قبلہ نے صاحبزادے کو بلا کر سمجھایا کہ ہمارے خاندان میں شکار پر پابندی ہے اس لئے تم کل صبح اپنے دوستوں کے ساتھ مت جانا۔ لیکن آنے والی گھڑی کو کون ٹال سکتا ہے۔
آفتاب میاں 14اپریل 1964ء کو اپنی والدہ سے اصرار کرکے فجر کے وقت گھر سے نکل کر دوستوں کے ساتھ ٹھٹھہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ دس بجے جس گاڑی پریہ سب لڑکے بیٹھے تھے حادثہ کا شکار ہوگئی۔
جس وقت یہ حادثہ ہوا معلم نے ایک بار پھر خطرہ کا اشارہ دیا لیکن قبلہ حضور کو خیال گزرا کہ حضیرہ میں کہیں کوئی حادثہ ہوگیا ہے چنانچہ وہ پھر اپنی تکوینی مصروفیات میں لگ گئے۔ حادثہ میں صاحبزادے اور ان کے ایک دوست کا انتقال ہوگیا۔
اتوار کا دن تھا اس خبر کا اس قدر اثر ہوا کہ کمر کے دو تین مہرے اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور کمر جھک گئی اور ساتھ ہی دونوں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ ایک آنکھ کی بینائی تو تھوڑی دیر میں واپس آگئی لیکن آپ پھر سیدھے نہ چل سکے۔ آفتاب میاں کے لوح مزار پر بجا طور پر “نور بصر ” لکھوایا۔
کچھ عرصہ کے بعد فرمایا کہ یہ واقعہ اس لئے ہوا کہ ایک دفعہ میرے ذہن میں خیال آیا کہ آفتاب اب بڑا ہوگیا ہے۔ میں اس کی شادی کردوں گا اور میری ذمہ داریاں ختم ہوجائیں گی۔ بس اس بات کی پکڑ ہوگئی کہ تو کون ہوتا ہے کہ کچھ کرسکے۔ اللہ اکبر بڑے لوگوں کے معاملات بھی بڑے نازک ہوتے ہیں جب کوئی اللہ کا ہوجاتا ہے تو ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ کی ایما کے بغیر کچھ کرنے کا ارادہ بھی کرسکے۔
آفتاب بھائی پر اللہ تعالیٰ نے بڑا کرم کیا۔ حادثہ اور موت کے درمیانی وقفہ میں ان کو ان مراحل سے گزار دیا جو جسم کی بندشوں میں رہتے ہوئے کوشش کے باوجود وہ حیات میں حاصل نہ کرسکے۔
1965ء کی جنگ ہوئی تو مشرقی پاکستان سے پان آنا بند ہوگئے۔ کراچی والوں نے پان کے بدلے بے شمار پتے آزمائے ، کبھی امرود کے تو کبھی پالک کے۔ قبلہ حضور اگر چاہتے تو ان کے لئے پان دستیاب ہونا مشکل نہیں تھا۔ لیکن آپ نے ہمیشہ عوامی قدریں اپنائیں۔ شہتوت کے پتوں پر کتھا چونا لگوا کر خود بھی کھایا اور آنے جانے والوں کو بھی بڑے شوق سے پیش کیا۔
جنگ بندی ہونے تک تمام دن کراچی کی فضائیں نیوی کی توپوں سے لرزتی رہتی تھیں۔ شام کو بلیک آؤٹ ہوجاتا تھا اور رات کے سناٹے کو پاک فضائیہ کے طیارے چیرتے رہتے۔ کبھی کبھی آسمانوں پر فضائیہ اور دشمن کے طیاروں کے درمیان جھڑپ میں پھلجھڑیاں چھوٹتیں یا شعلے لپکتے لیکن قبلہ حضور کے چہرہ مبارک پر کبھی تردد نہ دیکھا۔چنانچہ جنگ بندی ہونے تک قبلہ حضور اور ہم لوگوں کے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس زمانہ میں تکوینی نظامت کے ایک صاحب خدمت کو کراچی کی حفاظت کے لئے بطور خاص مقرر کردیا گیا تھا۔ ان کا قیام گاندھی گارڈن کے قریب تھا۔ 24 گھنٹوں میں ان کو صرف چند پیالی چائے پینے کی اجازت تھی وہ بھی اگر کوئی پلادے تو۔جس روز ہندوستانی ہوائی جہازوں کا حملہ کراچی پر ہوتا اس کے دوسرے روز صبح کے وقت وہ صاحب قبلہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے اور مٹھی بھر دانے حضور کی خدمت میں پیش کرتے۔
1958ء میں شرف باریابی سے لے کر 26 جنوری 1979ءکی درمیانی شب تک کہ جب آپ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا مہہ و سال کی گنتی میں اکیس سال کا عرصہ بنتا ہے لیکن اس دورانیہ کے واقعات ، معاملات ، حضورعلیہ الصلوة والسلام و اہل بیتؓ، چاروں خلفائےراشدینؓ ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ اجمعین اور اولیائے کرامؒ سے متعلق ارشادات و تشریحات کا ایک سمندر ہے جس میں ،میں غرق ہوں کبھی کبھی کوئی موتی ہاتھ آجاتا ہے۔
مصنف : احمد جمال عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ فروری ۱۹۹۳ِِ