زمرہ جات: تزکرہ قلندر بابا اولیاءؒ - طرز تفہیم

اسرارِ الٰہی کا بحر ذخّار

ابدال حق ، سیّدنا و مرشدنا حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نہ خود جُبّہ و دستارپوش تھے اور نہ ان کے ہاں بیعت کا سلسلہ مروؔجہ طریقوں سے تھا۔ ان کے ہاں نہ مشیخت کی کوئی کرو فر تھی ، نہ پیری مریدی کا اہتمام۔ بادی ُالنظر میں کون جان سکتا تھا کہ یہ سیدھی سادی ہستی اسرارِ الٰہی کا بحر ذخّا ر اور دریائے ناپیدا کنار ہے۔
حضور قبلہ بابا صاحب ؒ کا ہر نفس فیضان سے مملوتھا۔ مجھے جب بھی ان کی حضوری میں بار یا بی ہوتی تو میں ان کے ارشادات گرامی اور الطاف و اکرام جو مجھ پر ہوتے وہ سب بحوالہ دن ، تاریخ ،اپنی بیاض میں قلم بند کرلیا کرتا تھا۔ چند ارشادات گرامی پیش خدمت ہیں۔
۱۔ میں ایک روزحضور قلندر بابا اولیاءؒ کے سلسلۂ عالیہ میں اپنے داخلے کی تصدیق کے طور پر کسی تحریری سند بشکل شجرہ کا خواستگار ہواتو حضور بابا صاحبؒ نے فرمایا۔ ’’ہماری زبان سند ہے جو تحریر سے زیادہ مستند ہے۔‘‘
مجھے اپنی اس نالائقی اور گستاخی پر بڑی ندامت محسوس ہوئی جو میری دلی تمنا کے ساتھ حضور باباصاحب ؒ کی چشم حقیقت بیں سے مخفی نہ رہی۔ دریائے رحمت جوش میں آیا اور اپنے در سے بھکاری کو خالی ہاتھ نہ بھیجنے کے لئے دوسرے روز اپنے قلم سے تحریر کرکے خود ہی موم جامہ کرکے مجھے عطاکیا اور فرمایا ۔’’اسے بازو پر باندھ لو۔‘‘
۲۔ ایک روز میں نے دریافت کیا کہ سلسلۂ عظیمیہ میں اجرائے سلسلہ کے لئے کون کون بامجاز اور صاحب ِ اختیار ہیں؟
حضور بابا صاحب ؒ نے ارشاد فرمایا۔ ’’ ایک میں (حضور بابا جی ؒ ) خود ہوں، ایک خواجہ صاحب ہیں اور ایک ڈاکٹر صاحب ہیں۔ ایک بدرؔ صاحب ہیں ، ایک عبید اللہ صاحب ہیں جن کو تم نے نہیں دیکھا ہے۔‘‘
پھر عرض کیاکہ ان حضرات میں حضور کے علاوہ صاحب تکوین بھی کوئی صاحب ہیں؟
فرمایا۔ ’’ ہاں میں ‘‘۔
اس کے ساتھ ہی لفظ ’’ خانوادہ‘‘ کی تشریح فرمائی کہ خلیفہ اور خانوادہ میں یہ فرق ہے کہ خانوادہ کا امام اپنا ذہن منتقل کردیتا ہے اور وہ امام کا ممثل ہوتا ہے۔
۳۔ ایک روز عرض کیا کہ خواب میں سیّدنا حضور علیہ الصّلوٰۃوالسّلام کی زیارت ہوئی جس میں حضور ؐ کا روئے انور صاف دکھائی نہیں دیا۔
حضور باباصاحب ؒ نے فرمایا۔ ’’حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کا روئے منور دیکھنے کی کون تاب لاسکتا ہے؟ تمہارے ذہن پر جو پردہ ہے وہ اٹھ جائے گا تو حسبِ استعداد شبیہ مبارک صاف نظر آنے لگے گی۔‘‘
۴۔ ایک روز بابا صاحب ؒ نے ارشاد فرمایا کہ قرآن کی چند آیتوں کو جو منسوخ کہا جاتا ہے ، یہ غلط ہے کیوں کہ قرآن کی ایک آیت کو منسوخ اگر مانا جائے تو سار اقرآن مشکوک ہوسکتا ہے۔ اس لئے چاہیئے تو یہ تھا کہ جو آیات ناسخ و منسوخ دکھائی دیتی ہیں ان کے احکام میں غور کرکے تاویل و تطبیق کی جاتی ۔
میری (راوی) اس معاملے میں مولانا انور شاہ صاحب سے بڑی گفتگو ہوئی تھی۔ وہ مجھے قائل نہ کرسکے اور یہ کہکر بات ختم کردی کہ پہلے لوگوں کا یہی قول ہے جو ہمیں مانناپڑتا ہے۔

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 90 سے 92تک ہے۔

اس سلسلے کے تمام مضامین :

تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
    ِانتساب ، ِ1 – پیش رس ، ِ2 – حالات زندگی ، ِ3 – قلندر ، ِ4 – قلندری سلسلہ ، ِ5 – تعارف ، ِ6 – جائے پیدائش ، ِ7 – تعلیم و تربیت ، ِ8 – روحانی تربیت ، ِ9 – درونِ خانہ ، ِ10 – روزگار ، ِ11 – بیعت ، ِ12 – مقام ولایت ، ِ13 – اخلاق حسنہ ، ِ14 – بچپن اور شباب ، ِ15 – اوصاف حمیدہ ، ِ16 – عظمت ، ِ17 – صلبی اولاد ، ِ18 – تصنیفات ، ِ19 – کشف وکرامات ، ِ20 – کبوتر زندہ ہوگیا ، ِ21 – گونگی بہری لڑکی ، ِ22 – موسلادھار بارش ، ِ23 – میں نے ٹوکری اٹھائی ، ِ24 – مہر کی رقم ، ِ25 – فرشتے ، ِ26 – مشک کی خوشبو ، ِ27 – ایثار و محبت ، ِ28 – چولستان کا جنگل ، ِ29 – ہر شئے میں اللہ نظر آتا ہے ، ِ30 – زمین پر بٹھادو ، ِ31 – جِن مرد اور جِن عورتیں ، ِ32 – پیش گوئی ، ِ33 – درخت بھی باتیں کرتے ہیں ، ِ34 – لعل شہباز قلندر ؒ ، ِ35 – صاحب خدمت بزرگ ، ِ36 – فرشتے حفاظت کرتے ہیں ، ِ37 – سٹّہ کا نمبر ، ِ38 – بیوی بچوں کی نگہداشت ، ِ39 – نیلم کی انگوٹھی ، ِ40 – قلندر کی نماز ، ِ41 – وراثتِ علم لدنّی ، ِ42 – مستقبل کا انکشاف ، ِ43 – اولیاء اللہ کے پچیس جسم ہوتے ہیں ، ِ44 – فرائڈ اور لی بی ڈو ، ِ45 – جسم مثالی یا AURA ، ِ46 – آپریشن سے نجات ، ِ47 – کراچی سے تھائی لینڈ میں علاج ، ِ48 – ایک لاکھ روپے خرچ ہوگئے ، ِ49 – پولیو کا علاج ، ِ50 – ٹوپی غائب اور جنات حاضر ، ِ51 – زخم کا نشان ، ِ52 – بارش کا قطرہ موتی بن گیا ، ِ53 – جاپان کی سند ، ِ54 – اٹھارہ سال کے بعد ، ِ55 – خون ہی خون ، ِ56 – خواجہ غریب نواز ؒ اور حضرت بوعلی شاہ قلندر ؒ ، ِ57 – شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ ، ِ58 – میٹھا پانی کڑوا ہوگیا ، ِ59 – پیٹ میں رسولی کا روحانی علاج ، ِ60 – خرقِ عادت یا کرامت ، ِ61 – ارشادات ، ِ62 – انسان کا شعوری تجربہ ، ِ63 – زمان ماضی ہے ، ِ64 – ماضی اور مستقبل ، ِ65 – حواس کیا ہیں ؟ ، ِ66 – اپنا عرفان ، ِ 67 – اسرارِ الٰہی کا بحر ذخّار ، ِ68 – دربار رسالت ؐ میں حاضری ، ِ67 – کُن فیَکون ، ِ68 – مکتوبِ گرامی ، ِ69 – ہزاروں سال پہلے کا دور ، ِ70 – سورج مرکز ہے، زمین مرکز نہیں ، ِ71 – فرائڈ کا نظریہ ، ِ72 – علم مابعد النفسیات ، ِ73 – مابعد النفسیات اور نفسیات ، ِ74 – تصنیفات ، ِ75 – رباعیات ، ِمحرم نہیں راز کا وگر نہ کہتا ، ِاک لفظ تھا ، اک لفظ سے افسانہ ہوا ، ِمعلوم نہیں کہاں سے آنا ہے مرا ، ِمٹی میں ہے دفن آدمی مٹی کا ، ِنہروں کو مئے ناب کی ویراں چھوڑا ، ِاک جُرعہ مئے ناب ہے ہر دم میرا ، ِجس وقت کہ تن جاں سے جدا ٹھیر یگا ، ِاک آن کی دنیا ہے فریبی دنیا ، ِدنیائے طلسمات ہے ساری دنیا ، ِاک جُرعہ مئے ناب ہے کیا پائے گا ، ِتاچند کلیساو کنشت و محراب ، ِماتھے پہ عیاں تھی روشنی کی محراب ، ِجو شاہ کئی ملک سے لیتے تھے خراج ، ِکل عمر گزر گئی زمیں پر ناشاد ، ِہرذرّہ ہے ایک خاص نمو کا پابند ، ِآدم کو بنایا ہے لکیروں میں بند ، ِساقی ترے میکدے میں اتنی بیداد ، ِاس بات پر سب غور کریں گے شاید ، ِیہ بات مگر بھول گیا ہے ساغر ، ِاچھی ہے بری ہے دہر فریاد نہ کر ، ِساقی ! ترا مخمور پئے گا سوبار ، ِکل روز ازل یہی تھی میری تقدیر ، ِساقی ترے قدموں میں گزرنی ہے عمر ، ِآدم کا کوئی نقش نہیں ہے بے کار ، ِحق یہ ہے کہ بیخودی خودی سے بہتر ، ِجبتک کہ ہے چاندنی میں ٹھنڈک کی لکیر ، ِپتھر کا زمانہ بھی ہے پتھر میں اسیر ، ِمٹی سے نکلتے ہیں پرندے اڑ کر ، ِمعلوم ہے تجھ کو زند گانی کا راز ؟ ، ِمٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس ، ِہر چیز خیالات کی ہے پیمائش ، ِساقی کا کرم ہے میں کہاں کامئے نوش ، ِ76 – وصال ، ِ77 – خانقاہ عظیمیہ ، ِ78 – عرس مبارک ، ِ79 – سلسلۂ عظیمیہ کاتعارف اوراعزاض و مقاصد ، ِ80 – رنگ ، ِ81 – سنگ بنیاد ، ِ82 – خانواَدۂ سلاسل ، ِ83 – رنگ ، ِ84 – اغراض و مقاصد ، ِ85 – قواعد و ضوابط