بارش کا قطرہ موتی بن گیا
برکھارت تھی۔ سماں بھیگا ہوا تھا۔ بجلی چمک رہی تھی ۔ آسمان ابر آلود تھا۔ بارش برس رہی تھی۔باہر یہ خوبصورت منظر تھا اور کمرے میں تخلیقی فارمولوں پر گفتگو ہو رہی تھی۔ دوران گفتگو سچے موتیوں کا تذکرہ آگیا۔ اس غلام کو حضور بابا صاحب ؒ کے مزاج میں بہت دخل تھا۔ میں نے عرض کیا۔ ’’ حضور ! بارش کا ایک قطرہ جب سیپ کے پیٹ میں نشوونما پاتا ہے تو موتی بن جاتا ہے۔‘‘
یہ عرض کرنے کے بعد میں باہر نکلا اور ایک کٹورے میں بارش کا پانی جمع کرکے لے آیا۔ حضور بابا صاحب ؒ نے ڈراپر سے بارش کا پانی اٹھا یا اور اس کے اوپر اپنی نگاہ مرکوز کردی ۔ اب ڈراپرمیں سے جتنے قطرے گرے وہ سب سچے موتی تھے۔
میں نے ان موتیوں کو سرمے کے ساتھ پیس لیا۔ جتنے لوگوں نے بھی یہ سرمہ استعمال کیا، ان کی نظر کو ناقابل بیان فائدہ پہنچا۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 66 سے 66تک ہے۔