ماضی اور مستقبل
اس کے بعد خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
مطالعہ کی دوسری طرزوہ ہے جو خواب میں کام کرتی ہے۔ ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ ابھی لندن ؔ میں ہے اور ایک لمحے بعد دیکھتا ہے کہ وہ کراچی میں ہے۔ یہ بات ذہن کی اس واردات سے متعلق ہے جس کا نام غیر متواتر زمان(NON-SERIAL TIME) یا لاشعور ہے۔ غیر متواتر زمان(لاشعور) دراصل کتاب کے مطالعہ کرنے کی وہ طرز ہے جس میں زمان متواتر کی ترتیب حذف ہوجاتی ہے ۔ خواب میں انسان کے ذہن کی رفتار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ لاشعور میں داخل ہوجاتا ہے اور جو کچھ خواب میں نظر آتا ہے وہ زیادہ تر مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے متعلق ہوتا ہے۔
بعض اوقات خوابوں کے ذریعے انسان کو ان حادثات سے محفوظ رہنے کے لئے اشارات ملتے ہیں جو مستقبل میں پیش آنے والے ہوتے ہیں اور ان کی احتیاطی تدابیر کو اختیار کرکے ان حادثات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات غیرارادی طور پر بیداری میں انسان کی چھٹی حِس اسے آنے والے حادثات سے خبردار کردیتی ہے۔ اس قسم کے بہت سے واقعات لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ ان سب کی توجیہ ایک ہی ہے کہ ذہن ایک لمحے کے لئے زمان متواتر (شعور) سے نکل کر غیر متواتر زمان (لاشعور) کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے اور آنیوالے واقعہ کو محسوس کرلیتا ہے۔ لیکن یہ چیز غیرارادی طور پر وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اگر اس واردات پر مراقبہ کے ذریعے غلبہ حاصل کرکے ارادے کے ساتھ وابستہ کرلیا جائے تو بیداری کی حالت میں بھی آئندہ پیش آنے والے واقعات کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ (متواتر زمان کی حدود میں ) جو کل ہوگا وہ (غیر متواتر زمانے کی حدود میں ) آج بھی موجود ہے اور کل (ماضی میں ) بھی موجود تھا۔ یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زمانہ صرف ماضی (ریکارڈ) ہے۔ حال اور مستقبل صرف کتاب کے مطالعے کی طرزوں میں اختلاف سے وجود میں آئے ہیں۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص سنیما میں فلم دیکھ رہا ہے۔ فلم کے مناظرایک ترتیب کے ساتھ اس کی نظروں کے سامنے آرہے ہیں ۔ جو منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ہے اسے وہ حال (PRESENT) سے اور گزرے ہوئے مناظر کو ماضی (PAST)سے اور آنے والے مناظر کو مستقبل (FUTURE)سے تعبیر کرتا ہے حالاں کہ ساری فلم ماضی ہے۔ لیکن چوں کہ ماضی اور مستقبل شعوری طور پر انسان کے سامنے نہیں ہوتے اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ زمانہ گزرتا جارہا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ سارا زمانہ ماضی (فلم) ہے۔ فرق صرف زمانہ کا مطالعہ کرنے کی طرزوں میں ہے۔ پہلی طرز اپنے اندر ایک ترتیب رکھتی ہے۔ یہ طرز زمان متواتر ہے ۔ دوسری طرز میں لمحات یکے بعد دیگرے واقع نہیں ہوتے بلکہ یکایک ذہن ایک لمحے سے جست کرکے کئی لمحے بعد کے زمانے میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ طرز زمان غیر متواتر ہے۔ میں (حضوربابا جیؒ ) کہہ چکا ہوں کہ ازل سے ابد تک کا تمام زمانہ ماضی (ریکارڈ) ہے اور جو لمحہ اس سارے زمانے کا احاطہ کرتا ہے اس کو اہل روحانیت لمحہ حقیقی یا زمان حقیقی (REAL TIME)کہتے ہیں ۔ اسی زمانہ کا تذکرہ سیّدناحضورعلیہ الصّلوٰۃوالسّلام نے اپنی حدیث مبارکہ میں ان الفاظ کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے ، قلم اس کو لکھ کر خشک ہوچکا ہے۔ یعنی لازمانیت (لمحہ حقیقی) کی حدود میں ہر چیز مکمل طور پر ہوچکی ہے۔ جو کچھ ہورہا ہے وہ ماضی کا ایک حصّہ ہے۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 82 سے 84تک ہے۔