محرم نہیں راز کا وگر نہ کہتا
محرم نہیں راز کاوگر نہ کہتا
اچھا تھا کہ اک ذرّہ ہی آدم رہتا
ذرّہ سے چلا، چل کر اجل تک پہنچا
مٹی کی جفائیں یہ کہاں تک سہتا
آدمی قدرت کے راز، وجہ تخلیق اور تمام باتوں سے محض نابلد ہے۔ زمین کا ہر ذرّہ آدم کی تصویر کا عکس ہے۔ لیکن یہی ایک ذرّہ جب مشکّل اور مجسم ہوجاتا ہے تو فنا کا سفر شروع ہوجاتا ہے ۔ آدمی مٹی میں دفن ہوکر پھر مٹی بن جاتا ہے۔ مٹی کے ذرّات بوقلمونی کے ساتھ پھر مشکّل اور مجسم ہوجاتے ہیں اور پھر فنا کے راستے پر چل کر مٹی میں تحلیل ہوجاتے ہیں ۔ تحلیل نفسی کے اس مسلسل اور متواتر عمل سے آدمی کے اندر مٹی کی جفائیں برداشت کرنے کی سکت پیدا ہوتی ہے۔ دنیا کی نشوونما کا یہ قانون تخلیقی فارمولوں کا راز بنکر جاری و ساری ہے۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 129 سے 130تک ہے۔