میٹھا پانی کڑوا ہوگیا
ایک دفعہ حضورقلندر بابا اولیاءؒ روشنی کی لہروں کے اتار چڑھاؤ، لہروں کے ردّوبدل اور لہروں کی مقداروں میں کمی بیشی سے قانون تخلیق کی وضاحت فرمارہے تھے۔ آپ یہ بتارہے تھے کہ مقداروں کے ردّوبدل سے تخلیق میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے اور کائنات میں موجود ہرشئے ان ہی لہروں کے تانے بانے سے بنی ہوئی ہے ۔ جب نورانی لہریں نزول کرکے روشنی بنتی ہیں تو مختلف مظاہر وجود میں آجاتے ہیں ۔ مادّہ دراصل روشنیوں کا خلط ملط ہے۔ مثال میں جب نمک کا تذکرہ آیا اور نمک کے اندر کام کرنے والی روشنیوں کا عمل دخل زیر بحث آیا تو میں نے عرض کیا۔ ’’ حضور ! اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی کے اندر نمک کی لہریں ہر وقت مشترک رہتی ہیں۔ نمک کی لہریں آتی رہتی ہیں۔ذخیرہ ہوتی رہتی ہیں اور خرچ ہوتی رہتی ہیں؟‘‘
فرمایا ۔ ’’ خواجہ صاحب ! نمک جسم کے مسامات سے خارج ہوتا رہتا ہے اور جب مقداروں کے مطابق خرچ نہیں ہوتا تو بلڈ پریشر کا مرض لاحق ہوجاتا ہے اور مقداروں سے زیادہ خرچ ہوتا ہے تو لو (LOW) بلڈ پریشر لاحق ہوسکتا ہے۔‘‘
مجھے کیا سوجھی کہ میں ایک کٹورے میں پانی بھر لایا اور عرض کیا۔ ’’ یا شیخ ! جب مسامات سے نمک خارج ہوتا رہتا ہے تو پانی میں انگلیاں ڈالنے سے پانی نمکین ہوجاتا ہوگا۔‘‘
حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے کٹورے میں پانچوں انگلیاں ڈال دیں اور کچھ دیر کے بعد ہاتھ نکال کر فرمایا ۔ ’’چکھو۔۔۔۔۔!‘‘
یَابَدِیْعُ الْعَجَائِبْ ! کٹورے کا پانی سمندر کے پانی کی طرح نمکین اور کڑوا تھا۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 72 سے 73تک ہے۔