میں نے ٹوکری اٹھائی
ایک رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا کہ بابا صاحب ؒ نے ارشاد فرمایا ۔’’مچھلی مل جائے گی؟‘‘
میں نے عرض کیا۔’’حضور ! ساڑھے گیارہ بجے ہیں ۔ میں کوشش کرتا ہوں کسی ہوٹل میں ضرور ملے گی۔‘‘
بابا صاحب ؒ نے فرمایا۔’’نہیں ، ہوٹل کی پکی ہوئی مچھلی میں نہیں کھاتا۔ گھر میں پکی ہوئی مچھلی کو دل چاہ رہا ہے۔‘‘
میں شش وپنج میں پڑگیا کہ اس وقت کچی مچھلی کہاں سے ملے گی۔ اس زمانے میں ناظم آباد کی آبادی بہت کم تھی۔ بہرحال، میں نے اپنے دل میں یہ سوچ لیا کہ مچھلی ضرور تلاش کرنی چاہیئے ۔ یہ سوچ کر میں نے ٹوکری اٹھائی تو بابا صاحب ؒ نے فرمایا۔’’اب رہنے دو۔ صبح دیکھا جائے گا۔‘‘
ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ باہر جا کر دیکھا تو ایک صاحب ہاتھ میں رہو مچھلی لئے کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ ’’میں ٹھٹھہ سے آرہا ہوں اور یہ مچھلی بابا قلندر ؒ کی نذر ہے۔‘‘
یہ کہتے ہی وہ رخصت ہوگئے۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 43 سے 44تک ہے۔