کل روز ازل یہی تھی میری تقدیر
کل روز ازل یہی تھی میری تقدیر
ممکن ہو تو پڑھ آج جبیں کی تحریر
معذور سمجھ و اعظ ناداں مجھ کو
ہیں بادہ و جام سب مشیت کی لکیر
اے واعظ! میں جس آقا کا غلام ہوں ، ان کا ارشاد ہے ۔۔۔ قلم لکھ کر خشک ہوگیا۔ آج میری پیشانی پر زندگی کی جو فلم رقصاں ہے وہ میری پیدائش سے پہلے ہی ازل میں بن گئی تھی اور یہی میری تقدیر ہے۔ اے واعظ ! تیری وعظ و نصیحت کا میرے اوپر کیا اثر ہوگا۔ تو خود ازل کی لکھی ہوئی تحریر ہے۔ یہ سب بادہ وجام کی باتیں بھی ازل میں ہی لکھی جاچکی ہیں ۔ یہ شراب (زندگی) اور یہ جام (خاکی لباس سے مزین بدن) قدرت کی ایسی لکیر ہے جسے کوئی بھی نہیں بدل سکتا۔ اے واعظ! یہ سعادت ازلی سعادت مندوں کو میسر آتی ہے۔ ازلی شقی اس کے قرب سے بھی محروم رہتے ہیں ۔ بالآخر ایک وقت آئے گا کہ یہ لکیریں (لہریں ) منتشر ہوجائیں گی۔ گراویٹی (GRAVITY، دائرۂ کار) ختم ہوجائے گی اور آدمی کا جسم تحلیل ہوجائے گا۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 141 سے 142تک ہے۔