حواس کیا ہیں ؟
حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کو اللہ تعالیٰ نے رنگا رنگ صفات اور کشف و الہامات کا مرکز بنایا ہے۔ تجلیات کے سمندر میں سے نور میں ڈھلے ہوئے موتیوں سے آپ بھی فیض یاب ہوں : ۔
حضور بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا :
بعض چیزیں ایسی ہیں جن کو انسان غیر حقیقی کہہ کر سمجھنے کی کوشش کرتا اور واہمہ یا خواب و خیال کہہ کر نظر انداز کردیتا ہے حالاں کہ کائنات میں کوئی شئے فاضل اور غیر حقیقی نہیں ہے۔ ہر خیال اور ہر واہمہ کے پس پردہ کوئی نہ کوئی کائناتی حقیقت ضرور کار فرما ہوتی ہے۔
وہم کیا ہے ؟ خیال کہاں سے آتا ہے؟ یہ بات غور طلب ہے۔ اگر ان سوالات کو نظر انداز کردیں تو کثیر حقائق مخفی رہ جائیں گے۔ اور حقائق کی زنجیر جس کی سو فی صد کڑیا ں اس مسئلے کے سمجھنے پر منحصر ہیں ، انجانی رہ جائیں گی۔ جب ذہن میں کوئی خیال آتا ہے تو اس کا کوئی کائناتی سبب ضرور موجود ہوتا ہے ۔ خیال کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ذہن کے پردوں میں حرکت ہوئی ہے۔ یہ حرکت ذہن کی ذاتی حرکت نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق کائنات کے ان تاروں سے ہے جو کائنات کے نظام کو ایک خاص ترتیب میں حرکت دیتے ہیں ۔ مثلاً جب ہوا کا کوئی تیز جھونکا آتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ کرۂ ہوائی میں کہیں کوئی تغیر واقع ہوا ہے۔ اسی طرح جب انسان کے ذہن میں کوئی چیز وارد ہوتی ہے تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ انسان کے لاشعور میں کوئی حرکت واقع ہوئی ہے۔ اس کا سمجھنا خود انسانی ذہن کی تلاش پر ہے۔ ذہن انسانی کی دو سطح ہیں ۔ ایک سطح وہ ہے جو فرد کی ذہنی حرکت کو کائناتی حرکت سے ملاتی ہے۔ یعنی یہ حرکت فرد کے ارادوں اور محسوسات کو کائنات کے ہمہ گیرارادوں اور محسوسات تک لاتی ہے ۔ ذہن کی دو سطحیں دو (۲) قسم کے حواس کی تخلیق کرتی ہیں۔ ایک سطح کی تخلیق کو مثبت حواس کہیں تو دوسری سطح کی تخلیق کو منفی حواس کہہ سکتے ہیں ۔ دراصل مثبت حواس ایک معنی میں حواس کی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم بیدار ی کی حالت میں واقع ہوتی ہے۔ ( اسی قسم کو زمان متواتر کہتے ہیں اس تقسیم کے حصّے اعضائے جسمانی ہیں ۔ چنانچہ ہماری جسمانی فعلیت میں یہی تقسیم کام کرتی ہے ۔ ایک ہی وقت میں آنکھ کسی ایک شئے کو دیکھتی ہے اور کان کسی آواز کو سنتے ہیں ۔ ہاتھ کسی تیسری شئے کے ساتھ مصروف ہوتے ہیں ۔ اور پیر کسی چوتھی چیز کی نمائش کرتے ہیں ۔ زبان کسی پانچویں چیز کے ذائقے میں اور ناک کسی چھٹی چیز کے سونگھنے میں مشغول ہوتی ہے اور دماغ میں ان چیزوں سے الگ کتنی ہی اور چیزوں کے خیالات آرہے ہوتے ہیں۔ یہ مثبت حواس کی کارفرمائی ہے لیکن اس کے برعکس منفی حواس میں جو تحریکات ہوتی ہیں ان کا تعلق انسان کے ارادے سے نہیں ہوتا۔ مثلاً خواب میں باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا تمام حواس کام کرتے ہیں ، اعضائے جسمانی ساکت رہتے ہیں ۔ اعضائے جسمانی کے سکوت سے اس حقیقت کا سراغ مل جاتا ہے کہ حواس کا اجتماع ایک ہی نقطۂ ذہنی میں ہے۔ خواب کی حالت میں اس نقطہ کے اندر جو حرکت واقع ہوتی ہے، وہی حرکت بیداری میں جسمانی اعضاء کے اندر تقسیم ہوجاتی ہے۔ تقسیم ہونے سے پیشتر ہم ان حواس کو منفی حواس کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن جسمانی اعضاء میں تقسیم ہونے کے بعد ان کو مثبت کہنا درست ہوگا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ منفی اور مثبت دونوں حواس ایک ہی سطح میں متمکن نہیں رہ سکتے ۔ ان کا قیام ذہن کی دونوں سطحوں میں تسلیم کرنا ہوگا۔ تصوف کی اصطلاح میں منفی سطح کا نام نسمۂ مفرد اور مثبت سطح کا نام نسمۂ مرکب لیا جاتا ہے۔
حضوربابا صاحب ؒ نے فرمایا :
نسمۂ مرکب ایسی حرکت کا نام ہے جو تواتر کے ساتھ واقع ہوتی ہے یعنی ایک لمحہ، دوسرالمحہ، تیسرا لمحہ اور اس طرح لمحہ بہ لمحہ حرکت ہوتی رہتی ہے۔ اس حرکت کی مکانیت لمحات ہیں جس میں ایک ایسی ترتیب پائی جاتی ہے جو مکانیت کی تعمیر کرتی ہے۔ ہر لمحہ ایک مکان ہے، گویا تما م مکانیت لمحات کی قید میں ہے۔ لمحات کچھ ایسی بندش کرتے ہیں جس کے اندر مکانیت خود کو محبوس پاتی ہے اور لمحات کے دور میں گردش کرنے پر اور کائناتی شعور میں خود کو حاضر رکھنے پر مجبور ہے۔ اصل لمحات اللہ تعالیٰ کے علم میں حاضر ہیں اور جس علم کا یہ عنوان ہے، کائنات اسی علم کی تفصیل اور مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے ہر چیز کو دو رخوں پر پیدا کیا ہے۔ چنانچہ تخلیق کے یہی دو رخ ہیں۔ تخلیق کا ایک رخ خود لمحات ہیں۔ یعنی لمحات کا باطن یا شعور یک رنگ ہے اور دوسرا رخ لمحات کا مظاہر یا شعور کُل رنگ ہے۔ ایک طرف لمحات کی گرفت میں کائنات ہے اور دوسری طرف لمحات کی گرفت میں کائنات کے افراد ہیں۔ لمحات بیک وقت دوسطحوں میں حرکت کرتے ہیں ۔ ایک سطح کی حرکت کائنات کی ہرشئے میں الگ الگ واقع ہوتی ہے۔
یہ حرکت اس شعور کی تعمیر کرتی ہے جو شئے کو اس کی منفرد ہستی کے دائرے میں موجود رکھتا ہے۔ دوسری سطح کی حرکت کائنات کی تمام اشیاء میں بیک وقت جاری و ساری ہے۔ یہ حرکت اس شعور کی تعمیر کرتی ہے جو کائنات کی تمام اشیاء کو ایک دائرے میں حاضر رکھتا ہے ۔ لمحات کی ایک سطح میں کائناتی افراد الگ الگ موجود ہیں ۔ یعنی افراد کا شعور جدا جدا ہے ۔ لمحات کی دوسری سطح میں کائنات کے تمام افراد کا شعور ایک ہی نقطہ پر مرکوز ہے۔ اس طرح لمحات کی دو سطحیں یا دو شعور ہیں ۔ ایک سطح انفرادی شعور ہے اور دوسری سطح اجتماعی شعور ہے ۔ عام اصطلاح میں مرکزی شعورہی کو لاشعور کہاجاتا ہے۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 84 سے 88تک ہے۔