خون ہی خون
ایک رات دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولاتو دیکھا کہ دو صاحبان کھڑے ہیں اور حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ میں نے اس سے عرض کیا کہ اس وقت حضور بابا صاحب ؒ سے ملاقات ممکن نہیں ہے۔ رات زیادہ ہوگئی ہے۔ میرے یہ کہنے پر ایک صاحب نے اپنا منہ کھول دیا۔ میں یہ دیکھ کہ گھبرا گیا کہ ان کا منہ خون سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے زمین پر خون تھوک دیا۔ حالت کیوں کہ غیر معمولی تھی اس لئے ان صاحب کو بابا جی ؒ کی خدمت میں پیش کردیا۔ باباصاحبؒ کی خدمت میں پیش ہونے کے بعد وہی صورت پیش آئی کہ ان صاحب نے اپنا منہ کھول کر دکھایا تو اتنی دیر میں منہ پھر خون سے بھرا ہوا تھا۔ باباصاحب ؒ کے پوچھنے پر ان کے ساتھی نے بتایا کہ ایک ہفتہ سے یہ بیماری لاحق ہوگئی ہے کہ منہ میں خون آجاتا ہے اور یہ پانی کی طرح خون کی کلّیاں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر خون کی بوتل چڑھاتے رہتے ہیں اور منہ سے خون خارج ہوتا رہتا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر ہوئی خون کی بوند (DROP) ختم ہوئی تھی کہ میں انہیں وہاں سے اٹھا لایا۔حضور بابا صاحب ؒ نے آدھ منٹ کے لئے غور کیا اور جو علاج تجویز فرمایا وہ یہ ہے :
پرانے سے پرانا ٹاٹ لے کر اس کو جلا دیا جائے۔ جب ٹاٹ اچھی طرح آگ پکڑے تو اس کے اوپر تَوا اُلٹا دیا جائے۔ تھوڑی دیر بعد ٹاٹ راکھ بن جائے گا۔ اس جلے ہوئے ٹاٹ کو کھرل میں پیس کر شہد میں ملایا جائے اور صبح ، شام ، رات تین وقت یہ شہد مریض کو چٹایا جائے۔
وہ دونوں صاحبان شکریہ ادا کرکے چلے گئے ۔ میں کئی دن تک یہ سوچتا رہا کہ اس مریض کا کیا بنا اور اس بات پر باربار افسوس کرتا رہا کہ اگر میں پتہ پوچھ لیتا تو خیریت معلوم ہوجاتی۔
چوتھے روز وہ دونوں صاحبان پھر تشریف لائے۔ اب ان کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبّہ اور حضور بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے گلے میں ڈالنے کے لئے گلاب کا ہار تھا۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 69 سے 70تک ہے۔