رنگ
خدا نما جہاں نما ہے سلسلہ عظیمیہ
قبول شاہ دوجہاںؐ ہے سلسلہ عظیمیہ
حسین رہنماملے حسن عظیم برخیاؔ
قلندروں کا رنگ ہے سلسلہ عظیمیہ
کفر و الحاد کی آندھیاں جب اپنے عروج پر ہوتی ہیں اور ہر طرف گھپ اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تو اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحمت سے اپنی مخلوق کا اضطراب اور بے چینی دور کرنے کے لئے پیغمبر مبعوث فرماتے ہیں ۔ پیغمبر بتاتے ہیں کہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہدایت ربانی ہے۔ وہ توفیق ہے جو انسان کو بتاتی ہے کہ کائنات کیسے وجود میں آئی۔ اس کی تخلیق میں کون سے فارمولے کام کررہے ہیں ۔ آدم کو خالق کائنات نے جس لئے پیدا کیا ہے۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے وہ کہاں تھا اور دنیا کی چند روزہ زندگی گزار کر کہاں چلا جاتا ہے۔ چاند ، سورج اور کائنات کی تخلیق کس طرح ظہور پذیر ہوئی اور کہکشانی نظاموں کی سیر کے کیا طریقے ہیں۔
حضرت آدم ؑ سے حضرت عیسی ؑ تک شعور انسانی نے ارتقاء کا وہ مرحلہ طے کرلیا تھا جس میں وہ اخلاق، تمدن ، معیشت اور سیاست کی گتھیوں کو سلجھانے کی اہمیت کو محسوس کرچکا تھا۔ مخلوق کی ذہنی افتاد جب ارتقائی مراحل سے ذرا آگے قدم بڑھانے کی طرف مائل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ ؐ نے نوع انسانی کو اپنی حیات طیبہ کی روشن مثال کے ساتھ معاشرتی ، اخلاقی ، تاریخی اور تسخیری فارمولوں کی مستند کتاب قرآن سےاستفادہ کرنے کی واضح ہدایات دیں اور بتایا کہ یہ کتاب بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم پر گامزن کرتی ہے اور عزت و شرف کے اعلیٰ مقام پر فائز کرتی ہے۔ سیّدناحضورعلیہ الصّلوٰۃوالسّلام کا ارشاد گرامی ہے:
’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مشن پر بھیجا ہے کہ میں انسانوں کے درمیان عدل واحسان سے باہمی تعلقات قائم کردوں، تمام بتوں کو توڑ دوں اور صرف ایک اللہ کی اطاعت و بندگی کا مرکز و محور بنادوں، یہاں تک کہ کسی حیثیت سے کسی معاملہ میں کوئی اللہ کا شریک نہ رہے گا۔‘‘
ہر انسان دوسرے انسان سے ہم رشتہ ہے ۔ ہر انسان دوسرے انسان سے اس لئے متعارف ہے کہ اس کے اندر زندگی بننے والی لہریں ایک دوسرے میں رد وبدل ہورہی ہیں۔ پر مسرت محفل میں جہاں سینکڑوں ہزاروں افراد آلام سے بے نیاز ، خوشیوں کے لطیف جذبات سے سرشار ہیں وہاں ایک فرد کی المناکی ساری محفل کو مغموم کردیتی ہے۔ ۔۔۔۔۔آخر ایسا کیوں ہے؟
اس لئے کہ پوری نوع کے افراد زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہیں ۔ ایک کڑی کمزور ہوجائے تو ساری زنجیر کمزور ہوجاتی ہے۔ ایک کڑی ٹوٹ جائے تو زنجیر میں جب تک دوسری کڑی ہم رشتہ نہ ہوجائے زنجیر نہ کہلائے گی۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے:
وَاعْتَصِمُوْ ابَحَبْلِ اللہ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّ قُوْا (آل عمران)
سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑ لو اورتفرقہ میں نہ پڑو۔
اتحاد ویگانگت ماضی کو پروقار، حال کو مسرور اور مستقبل کو روشن و تابناک بناتی ہے۔
اللہ کی سنت میں نہ تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے ۔ اس قانون کے مطابق جب اللہ کے رسول ؐ نے ہماری ظاہری آنکھ سے پردہ فرمالیا تو سنت کو جاری وساری رکھنے کے لئے اللہ نے اپنے رسول ؐ کے ورثا کاایک سلسلہ قائم کردیا۔ سلسلہ کیا ہے؟ ان اولیاء اللہ کا گروہ ہے جن کے بارے میں قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ربانی ہے:
الاَ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہ لاَ خَوْفُ‘ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْن ط
اللہ کے دوستوں کو خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم آشنازندگی سے مانوس ہوتے ہیں ۔(یونس۔آیت ۶۲)
علم حضوری سے مالا مال اولیاء اللہ نے خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی پیش رفت کے لئے ہدایت و رہنمائی کی ذمہ داری اپنے توانا کاندھوں پر اٹھالی۔ آج یہ جو توحید کا غلغلہ اور علم حضوری کی جھلک نظر آتی ہے یہ سب حضور اکرم ؐ کے ان ہی ورثا کی کوشش کا ثمر ہے۔
حضور قلندر بابااولیاء ؒ فرماتے ہیں :
’’حضورعلیہ الصّلوٰۃوالسّلام اللہ کے ایسے محبوب بندے ہیں کہ جتنی قربت اللہ نے انہیں عطا کی ہے کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ جس قوم یا جس فرد پر حضور ؐ کے اعلیٰ اوصاف اور روحانی اقدار کی چھاپ نہ ہو، اس کا یہ کہنا کہ میں حضورؐ کا امتی ہوں حضور ؐ کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی ہے۔‘‘
جو خودعارف نہیں وہ کسی کو عارف کیسے بنا سکتا ہے! جو خود قلاش اور مفلوک الحال ہے وہ کسی کو کیا خیرات دے گا!
اس پاکیزہ کردار عارف حق نے ہمیں بتایا ہے کہ آج ہم کفر و شرک کے طوفان سے اگر بچے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ وہ آواز ہے جو پیدا ہوتے ہی ہم اپنےبچوں کی حق آشنا سماعت میں منتقل کردیتے ہیں ۔ اذان کے معنی اور مفہوم پر تفکر کرنے سے یہ بات مشاہدہ میں آجاتی ہے کہ پیدا ہونے والے ہر بچے کے دماغ کی اسکرین (SCREEN) پر پہلا نقش یہ مرتسم ہوتا ہے کہ ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔وہ اللہ جو ہمیں زندہ رکھتا ہے اور ہمارے لئے زندگی کے وسائل فراہم کرتا ہے۔
اللہ والوں کے اوپر رحمتوں کا نزول ہوتا ہے، تجلیات کی بارش ہوتی ہے، ان کے فیوض وبرکات کی روشن اور منور چادر ایک عالم پر سایہ فگن رہتی ہے۔
ہر زمانے میں طالب حق کسی عارف بزرگ سے بیعت ہونے کے بعد جب وہ سلوک کی منزلیں طے کرتا ہے تو وہ بزرگ کسی نہ کسی راستے سے قدم بہ قدم چلا کر منزل مقصود یعنی عرفان خداوندی تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ اصول و قوانین اور روحانی راستے سلسلے کا تعین کرتے ہیں ۔ گروہ اولیاء اللہ میں سے منتخب اور اکابر لوگوں نے ہر زمانے میں طالبان حق کی عمومی حالت کو پیش نظر رکھ کر ایسے اذکارواسباق مرتب کئے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر عرفان خداوندی حاصل کرسکیں۔ہر زمانے میں نوع انسانی کی شعوری اور جسمانی صلاحیتوں میں فرق بھی واقع رہا ہے۔ ایک زمانہ میں لوگوں کے پاس جسمانی قوت کی فراوانی تھی لیکن ان کے شعور کی قوتیں اتنی مضبوط نہیں تھیں جتنی کہ آج دیکھنے میں آرہی ہیں۔ فی زمانہ ماحول کے اثرات سے لوگوں کے اعصاب کمزور ہوگئے ہیں ۔ ان کی مصروفیات میں حد درجہ اضافہ ہوگیا ہے۔ چنانچہ آج لوگوں کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ پرانے طریقہ ہائے ریاضت پر عمل کرسکیں۔
آج کے سائنسی دور میں کوئی بات اس وقت قابل قبول ہے جب اسے فطرت کے مطابق اور سائنسی توجیہات کے ساتھ پیش کیاجائے۔ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کا مشن بھی یہی ہے کہ لوگوں کے اوپر تفکر کے دروازے کھول د یئے جائیں ۔ چنانچہ حالات حاضرہ کے پیش نظر سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے اسباق و اذ کار بہت ہی مختصر مرتب کئے گئے ہیں جن کے ذریعے رہروان سلوک کو عرفان خداوندی نصیب ہوتا ہے۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 162 سے 167تک ہے۔