زمان ماضی ہے
ایک نشست میں حضور باباصاحب رحمتہ اللہ علیہ نے زمانیت اور مکانیت کی حقیقی طرزوں پر روحانی نقطۂ نظر سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا۔ ’’ ہر تخلیق دو (۲) رخوں کی شکل و صورت میں وجود رکھتی ہے ۔ چنانچہ زندگی کے بھی دو رخ ہیں ۔ ایک وسیع تررخ (لاشعور) اور دوسرا محدودتررخ (شعور)۔
زندگی کا وسیع تر پہلو (لاشعور ) زمان ہے جس کی حدود ازل تا ابد ہیں ۔ اور محدود تر پہلو (شعور) مکان ہے جو دراصل زمان (لاشعور) کا تقسیم شدہ جزو ہے۔ سوال یہ ہے کہ زمان فی الحقیقت ہے کیا؟ اور زمان کی تقسیم یعنی مکانیت کیا ہے اور کس طرح وجود میں آتی ہے؟‘‘
فرمایا:
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ زمانہ گزرتا رہتا ہے حالاں کہ فی الحقیقت زمان ریکارڈ (ماضی) ہے۔ حال اور مستقبل علیٰحدہ کوئی وجود نہیں رکھتے بلکہ ماضی کے اجزاء ہیں۔ سیّدناحضورعلیہ الصّلوٰۃوالسّلام نے فرمایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ جو کچھ ہونے والا ہے ، قلم اس کو لکھ کر خشک ہوگیا ۔‘‘
یہاں تک گفتگو کے بعد حضور بابا صاحب ؒ نے اس حدیث کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرمایا :
ایک کتاب ہے جو لکھی جاچکی ہے یعنی ماضی (ریکارڈ) ہے۔ اب اس کتاب کو پڑھنے کی طرزیں مختلف ہیں ۔ اگر کتاب شروع سے ترتیب و تسلسل سے پڑھی جائے یعنی ایک لفظ، پھر دوسرا لفظ، ایک سطر ، پھر دوسری سطر، ایک صفحہ ، پھردوسرا صفحہ ، پھر تیسرا صفحہ علیٰ ہذالقیاس اس طرح پوری کتاب کا مطالعہ کیاجائے ۔ مطالعے کی یہ طرزو ہ ہے جو بیداری (شعور) میں کام کرتی ہے۔ انسان کا شعوری تجربہ یہ ہے کہ ایک دن گزرتا ہے ، پھر دوسرا ، ایک ہفتہ گزرتا ہے ، پھر دوسرا۔ اسی طرح ماہ و سال اور صدیاں اسی ترتیب اور اسی طرز سے یعنی ایک کے بعد ایک کرکے گزرتی رہتی ہیں۔ منگل کے بعد جمعرات کا دن اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک کہ بدھ کا دن نہیں گزرجاتا ۔ اسی طرح شوّالؔ کا مہینہ اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک کہ رمضانؔ اور اس سے پہلے کے مہینے نہیں گزر جاتے۔ یہی طرز انسان کی شعوری طرز(بیداری ) ہے ۔ اس طرز کو روحانیت میں زمان متواتر یا زمان مسلسل (SERIAL TIME) کہتے ہیں ۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 81 سے 82تک ہے۔