سورج مرکز ہے، زمین مرکز نہیں
اب سورج کی پرستش شروع ہوگئی۔ کو برنیکسؔ آفتاب پرست تھا۔ اس لئے کہاسورج مرکز ہے۔ زمین مرکز نہیں ہے۔ پیشتر بھی یہی بات کہی گئی تھی لیکن کوبرنیکسؔ نے زیادہ زور دے کر ہئیت کو نقشہ بد ل کر پیش کیا۔ آئزک نیوٹن کا زمانہ آیا۔ اس نے کہا کشش ثقل اور میکانکیت فطرت کا اسلوب ہے۔ نیچر(NATURE،فطرت) میں گراریوں کے ذریعے عمل ہورہاہے۔ صدی گزرنے لگی تو اہل فن نے کہنا شروع کردیا کہ فطرت کے تمام مظاہر کمانیوں اور گراریوں پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ نیوٹن کے بعد دوسری صدی آئی تو اس کے وضع کردہ جذب و کشش اور مقناطیسیت بھی بحث طلب امور بن گئے۔ بائیس سو برس پہلے ویمفراطلیس نے جوبات کہی تھی کہ مادہ کا آخری ذرّہ جزولا تجزیٰ ہے ، وہ ٹوٹ نہیں سکتا۔ یہ بات پھر لوٹ آئی مگر امتداد زمانہ کے ہاتھوں یہ تھیوری (THEORY، نطریہ) پامال ہوچکی تھی۔
سائنس دانوں نے کہا جوہری نظام قابل قبول ہے ۔ مگر جوہری نظام کا آخری مرحلہ کیا ہوسکتا ہے؟ یہ جاننا ضروری ہے۔ اور جوہر کو توڑنے کی جدوجہد شروع ہوگئی ۔
بیسویں صدی کے نصف اول میں انسان تمام میدانوں سے بھاگ نکلا۔ اس نے فیصلہ کردیا کہ ایتھرموجود نہیں ہے۔ یہ صرف پہلے لوگوں کا مفروضہ تھا۔ اس دور کے سائنس داں روح سے بیزار ہوہی چکے تھے۔ ان کا یہ خیال ہوا کہ کہیں ایتھر کی جگہ روح نہ آجائے۔ ان نظریات کو کہ آنکھوں کی روشنی باہر دیکھتی ہے وہ پہلے ہی نظر انداز کرچکے تھے۔ نئے نظریات رو سے خارجی دنیا کی روشنی ہماری آنکھوں میں داخل ہوکر دماغی اسکرین پر شبیہیں اور علامتیں بناتی دکھائی دینے لگیں ۔ بات سے بات نکلتی ہے۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 111 سے 112تک ہے۔