فرائڈ کا نظریہ
نفسیات دانوں نے باصرہ ، لامسہ اور سامعہ کے مہیجوں کا سہارا لینا شروع کردیا۔ فرائڈ نے اپنے دور سے پہلے لوگوں کی کہی ہوئی باتوں پر توسیعی تانا بانا تیار کیا۔ جو ڈارون کی ارتقائی زنجیروں سے ملاجلا پنجرہ بن گیا۔ اس پنجرے میں اسلاف سے منتقل شدہ لی ؔبی ڈو داخل ہوگیا جس کے اندر نوع انسانی کے گناہوں کی تمام حسرتیں مجتمع تھیں ۔ اسے بھی روح کا ڈر ہو ا تو اس نے کہا۔ ’’ یہ صرف لاشعور ہے۔‘‘
آئنسٹائن کے معاصر جب چند صدیوں کے معرکتہ الآراء اجتہاد پر تبصرہ کرنے لگے تو انہوں نے شعاعی مظاہر ، مقناطیسی مظاہر اور حیاتی مظاہر کو الگ الگ کردیا…….. اب جوہر ٹوٹ چکا ہے اور آئنسٹائن کی وضع کردہ تھیوری زمان و مکان کے بارے میں پھیل چکی ہے۔ اس نے کہا کہ زمان و مکان کا الگ الگ تصور بالکل غلط ہے کیونکہ مکان میں ترچھا پن ہے۔
تشریح کی گئی کہ فطرت کا عمل جو کائنات میں جاری و ساری ہے ، ردانی میں عمودی نہیں بلکہ اس میں ترچھا پن ہے۔ یہاں جذب و کشش ، نظام سیارگان اور روشنی کی رفتار سب کی سب مشکوک ہوگئی۔ یہ دور اضافیت اور مقداریت کے نام سے موسوم ہوا۔
ذرا سوچئے! روشنی کی رفتا ایک لاکھ چھیاسی ہزار دوسوبیاسی میل فی سیکنڈ مان لی جائے تو مکان میں ترچھا پن اور اس کی پیمائش کس طرح ممکن ہے۔ جب کہ ہم فاصلہ بالراست ناپتے ہیں یعنی عمودی لائن ڈال کر ، نہ کہ نیم دائرہ بناکر ۔ آئنسٹائن اور آئنسٹائن جیسے اور لوگ ، مابعد النفسیات اس کی حمایت نہیں کر تا۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 112 سے 113تک ہے۔