قلندر
قبل اس کے ہم حضور قلندر بابا اولیا ؒء کے حالات اور کشف و کرامات پیش کریں مناسب ہے کہ لفظ ’قلندر‘ کی وضاحت کردی جائے تاکہ انکے مقام کا اندازہ ہوجائے اور ان سے وقوع میں آنے والے واقعات سمجھ لینے اور ان پر یقین کر لینے میں ذہن و خیال ، ارادے اور نیّت کو یکسوئی حاصل ہوجائے۔
ایسا انسان جس کے دیدۂ اعتبار اور چشم حقیقت کے سامنے ہر شئے کی شیئیت اٹھ گئی ہواور وہ مراتب وجود کو سمجھ کر ان میں عروج کرتا رہے، یہاں تک کہ عالم تکوین سے بالاقدم رکھے اور مقام وحدانیت کے مشاہدے میں غرق رہ کر احدیّت کی تفصیل میں عین و حدت کا جمال مشاہدہ کرکے مقام وحدت کی مستی اور بے کیفی میں گم رہتے ہوئے مرتبۂ احدیّت پر واپس آئے۔ اس کے بعد اپنے مراتب سے جدا ہوئے بغیر احدیت کے مشاہدے میں محور ہے۔ پھر انسانی مرتبے پر پہنچ کر عبودیت کا مقام حاصل کرے، یہاں تک کہ اس کا عروج و نزول ایک ہوجائے ۔ جزو میں کُل اور کُل میں جزو کو دیکھے ، پھر ان تمام سے مستغنی ہوکر حیرت محمودہ یعنی سُرور میں رہے تو اس کو قلندر کہتے ہیں۔
یہ قلندر کا مقام محبوبیت کے مقام سے بھی اعلیٰ ہے کیونکہ محبوبیت کے مقام میں پھر بھی دوئی باقی رہتی ہے کہ ایک عاشق، دوسرا معشوق ہوتا ہے۔لیکن قلندری کا مقام یہ ہے کہ یہاں دوئی بالکل نہیں رہتی۔
من تو شدم تو من شدی
کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کلامِ مجید فرقان حمید میں ہادیٔ کو نین صلی ّ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقام کی خبردی ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر ارشاد فرمایا ہے :
یَدُ اللہَ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ
ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
حالاں کہ بیعت کے وقت صحابہ کرام ؓ کے ہاتھ پر نبی ؐ کا ہاتھ تھا۔ وحدت کے لحاظ سے یعنی دوئی باقی نہ رہنے کے اعتبار سے نبی ؐ کے ہاتھ کو رَبّ ذوالجلال نے اپنا ہاتھ قرار دیا ہے۔ ایک اور جگہ حضرتِ حق جلّ جلالہ فرماتے ہیں :
ترجمہ۔ ’’اے نبی ؐ ! آپ نے جب خاک اٹھا کر پھینکی تو وہ آپ نے خاک اٹھا کر نہیں پھینکی بلکہ وہ اللہ نے خاک اٹھا کر پھینکی تھی۔‘‘
یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ نے نبی ؐ کے فعل کو اپنا فعل قرار دیا ہے۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 21 سے 22تک ہے۔