مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس
مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس
جاگیر ہےپاس ان کے فقط ایک قیاس
ٹکڑے جو ہیں قیاس کے ہیں ، مفروضہ ہیں
ان ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس
ہمارے اطراف میں بکھرے ہوئے مختلف جاندار مٹی کی بنی ہوئی وہ مختلف تصویریں ہیں جو سانس لیتی ہیں۔ان کی زندگی کا سارا اثاثہ قیاس آرائی ہے۔یہی قیاس آرائی حواس کی بنیاد ہے۔ جب خیال متحرک ہوتا ہے تو بصارت، سماعت، گویائی، شامہ، مشام اور لمس درجہ بدرجہ ترتیب پا جاتے ہیں۔چونکہ ان کی بنیاد قیاس آرائی ہے اس لئے ظاہری حواس میں ہمارا دیکھنا، سمجھنا اور سوچنا حقیقی نہیں ہے۔اسی لئےروحانیت میں قلبی مشاہدے کو حقیقت کہا گیا ہے۔قرآن کہتا ہے ’’دل نے جو دیکھا، جھوٹ نہیں دیکھا۔‘‘
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 147 سے 147تک ہے۔