زمرہ جات: تزکرہ قلندر بابا اولیاءؒ - کشف و کرامات

کبوتر زندہ ہوگیا

مجھے کبوتر پالنے کا شوق تھا ۔ ایک مرتبہ ایک فاختہ آکر کبوتروں کے ساتھ دانہ چگنے لگی۔ ایک کبوتر کے ساتھ اس کا جوڑا ملادیا گیا۔ اس کے انڈوں سے جو دوبچے نکلے وہ اپنی خوبصورتی میں یکتا اور منفرد تھے۔ پروں کا رنگ گہرا سیاہ اور باقی جسم سفید تھا۔ ان کے اندر اس قدر کشش تھی کہ جو دیکھتا تعریف کئے بغیر نہ رہتا۔ شامت اعمال ، ایک روز صبح سویرے بلّی نے ایک کبوتر کو پکڑا اور چھت پر لے گئی۔ میں نے جب بلّی کے منہ میں یہ کبوتر دیکھا تو میں اس کے پیچھے دوڑا۔ اوپر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ بلّی نے کبوتر کے بال و پر الگ کردئیے ہیں اور بیٹھی اسے کھا رہی ہے۔ غصّہ تو بہت آیا مگر پھر سوچا کہ کبوتر تو اب مرہی چکا ہے، بلّی کو ہی پیٹ بھرنے دیا جائے اور جب یہ کبوتر کھا چکے گی تو اسے سزادوں گا۔ یہ خیال آتے ہی میں نیچے چلاگیا۔ لیکن مجھے اتنا شدید صدمہ تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ حضور بابا صاحب قبلہؒ پہلی منزل کے کمرے میں تخت پر تشریف فرما تھے۔میں نے حضرت سے احتجاجاً عرض کیا کہ بلّی نے میرا کبوتر ماردیا ہے۔ حضور بابا صاحب نے فرمایا ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ آپ کے ہوتے ہوئے بلی میرا کبوتر لے جائے ، یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ کہنے کے بعد میں دل برداشتہ باورچی خانے میں جاکر ناشتہ تیار کرنے لگا۔میرے حضور باباجی ؒ نے مجھے آواز دی لیکن غصّے نے مجھے گستاخی کرنے پر مجبور کردیا اور میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوبارہ آواز دی۔ وہ بھی میں نے اَن سنی کردی۔ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب بھائی محسن صاحب بھی میرے ساتھ رہتے تھے۔ حضور بابا صاحب ؒ نے بھائی محسن کو آواز دی اور میرے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ صاحب کو کبوتر کے مرنے کا بہت صدمہ ہے۔ اور وہ باورچی خانے میں بیٹھے رو رہے ہیں۔ حضور بابا صاحب ؒ ان کی اس بات سے متاثر ہوئے اور فرمایا۔ ’’خواجہ صاحب کو بلاؤ اور ان سے کہو کہ ان کا کبوتر آگیا ہے۔‘‘
بھائی محسن صاحب صحن میں آئے تو دیکھا کہ وہ کبوتر دوسرے کبوتر کے ساتھ موجود تھا۔ بھائی محسن نے یہ بات مجھے بتائی تو میں نے اس کو مذاق پر محمول کیا اور سمجھا کہ یہ بات میری دل جوئی کے لئے کہہ رہے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے سنجیدگی سے کہا کہ آپ باہر جاکر دیکھیں تو سہی تو میں بے یقینی کے عالم میں اٹھ کر صحن میں آیا۔ دیکھا تو کبوتر موجود تھا۔ کبوتر کو دیکھتے ہی میں دوبارہ دوڑا ہوا چھت پر گیا۔ اور تخت کے نیچے دیکھا تو وہاں خون کے دھبے اور کچھ پَر پڑے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کہ مجھے شدید ندامت اور شرمندگی ہوئی۔ میں نے نیچے آکر حضور بابا صاحب ؒ کے پیر پکڑلئے اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی۔ شام ہونے سے پہلے پہلے سارے کبوتر تقسیم کرد ئیے۔

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 40 سے 42تک ہے۔

اس سلسلے کے تمام مضامین :

تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
    ِانتساب ، ِ1 – پیش رس ، ِ2 – حالات زندگی ، ِ3 – قلندر ، ِ4 – قلندری سلسلہ ، ِ5 – تعارف ، ِ6 – جائے پیدائش ، ِ7 – تعلیم و تربیت ، ِ8 – روحانی تربیت ، ِ9 – درونِ خانہ ، ِ10 – روزگار ، ِ11 – بیعت ، ِ12 – مقام ولایت ، ِ13 – اخلاق حسنہ ، ِ14 – بچپن اور شباب ، ِ15 – اوصاف حمیدہ ، ِ16 – عظمت ، ِ17 – صلبی اولاد ، ِ18 – تصنیفات ، ِ19 – کشف وکرامات ، ِ 20 – کبوتر زندہ ہوگیا ، ِ21 – گونگی بہری لڑکی ، ِ22 – موسلادھار بارش ، ِ23 – میں نے ٹوکری اٹھائی ، ِ24 – مہر کی رقم ، ِ25 – فرشتے ، ِ26 – مشک کی خوشبو ، ِ27 – ایثار و محبت ، ِ28 – چولستان کا جنگل ، ِ29 – ہر شئے میں اللہ نظر آتا ہے ، ِ30 – زمین پر بٹھادو ، ِ31 – جِن مرد اور جِن عورتیں ، ِ32 – پیش گوئی ، ِ33 – درخت بھی باتیں کرتے ہیں ، ِ34 – لعل شہباز قلندر ؒ ، ِ35 – صاحب خدمت بزرگ ، ِ36 – فرشتے حفاظت کرتے ہیں ، ِ37 – سٹّہ کا نمبر ، ِ38 – بیوی بچوں کی نگہداشت ، ِ39 – نیلم کی انگوٹھی ، ِ40 – قلندر کی نماز ، ِ41 – وراثتِ علم لدنّی ، ِ42 – مستقبل کا انکشاف ، ِ43 – اولیاء اللہ کے پچیس جسم ہوتے ہیں ، ِ44 – فرائڈ اور لی بی ڈو ، ِ45 – جسم مثالی یا AURA ، ِ46 – آپریشن سے نجات ، ِ47 – کراچی سے تھائی لینڈ میں علاج ، ِ48 – ایک لاکھ روپے خرچ ہوگئے ، ِ49 – پولیو کا علاج ، ِ50 – ٹوپی غائب اور جنات حاضر ، ِ51 – زخم کا نشان ، ِ52 – بارش کا قطرہ موتی بن گیا ، ِ53 – جاپان کی سند ، ِ54 – اٹھارہ سال کے بعد ، ِ55 – خون ہی خون ، ِ56 – خواجہ غریب نواز ؒ اور حضرت بوعلی شاہ قلندر ؒ ، ِ57 – شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ ، ِ58 – میٹھا پانی کڑوا ہوگیا ، ِ59 – پیٹ میں رسولی کا روحانی علاج ، ِ60 – خرقِ عادت یا کرامت ، ِ61 – ارشادات ، ِ62 – انسان کا شعوری تجربہ ، ِ63 – زمان ماضی ہے ، ِ64 – ماضی اور مستقبل ، ِ65 – حواس کیا ہیں ؟ ، ِ66 – اپنا عرفان ، ِ67 – اسرارِ الٰہی کا بحر ذخّار ، ِ68 – دربار رسالت ؐ میں حاضری ، ِ67 – کُن فیَکون ، ِ68 – مکتوبِ گرامی ، ِ69 – ہزاروں سال پہلے کا دور ، ِ70 – سورج مرکز ہے، زمین مرکز نہیں ، ِ71 – فرائڈ کا نظریہ ، ِ72 – علم مابعد النفسیات ، ِ73 – مابعد النفسیات اور نفسیات ، ِ74 – تصنیفات ، ِ75 – رباعیات ، ِمحرم نہیں راز کا وگر نہ کہتا ، ِاک لفظ تھا ، اک لفظ سے افسانہ ہوا ، ِمعلوم نہیں کہاں سے آنا ہے مرا ، ِمٹی میں ہے دفن آدمی مٹی کا ، ِنہروں کو مئے ناب کی ویراں چھوڑا ، ِاک جُرعہ مئے ناب ہے ہر دم میرا ، ِجس وقت کہ تن جاں سے جدا ٹھیر یگا ، ِاک آن کی دنیا ہے فریبی دنیا ، ِدنیائے طلسمات ہے ساری دنیا ، ِاک جُرعہ مئے ناب ہے کیا پائے گا ، ِتاچند کلیساو کنشت و محراب ، ِماتھے پہ عیاں تھی روشنی کی محراب ، ِجو شاہ کئی ملک سے لیتے تھے خراج ، ِکل عمر گزر گئی زمیں پر ناشاد ، ِہرذرّہ ہے ایک خاص نمو کا پابند ، ِآدم کو بنایا ہے لکیروں میں بند ، ِساقی ترے میکدے میں اتنی بیداد ، ِاس بات پر سب غور کریں گے شاید ، ِیہ بات مگر بھول گیا ہے ساغر ، ِاچھی ہے بری ہے دہر فریاد نہ کر ، ِساقی ! ترا مخمور پئے گا سوبار ، ِکل روز ازل یہی تھی میری تقدیر ، ِساقی ترے قدموں میں گزرنی ہے عمر ، ِآدم کا کوئی نقش نہیں ہے بے کار ، ِحق یہ ہے کہ بیخودی خودی سے بہتر ، ِجبتک کہ ہے چاندنی میں ٹھنڈک کی لکیر ، ِپتھر کا زمانہ بھی ہے پتھر میں اسیر ، ِمٹی سے نکلتے ہیں پرندے اڑ کر ، ِمعلوم ہے تجھ کو زند گانی کا راز ؟ ، ِمٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس ، ِہر چیز خیالات کی ہے پیمائش ، ِساقی کا کرم ہے میں کہاں کامئے نوش ، ِ76 – وصال ، ِ77 – خانقاہ عظیمیہ ، ِ78 – عرس مبارک ، ِ79 – سلسلۂ عظیمیہ کاتعارف اوراعزاض و مقاصد ، ِ80 – رنگ ، ِ81 – سنگ بنیاد ، ِ82 – خانواَدۂ سلاسل ، ِ83 – رنگ ، ِ84 – اغراض و مقاصد ، ِ85 – قواعد و ضوابط