کبوتر زندہ ہوگیا
مجھے کبوتر پالنے کا شوق تھا ۔ ایک مرتبہ ایک فاختہ آکر کبوتروں کے ساتھ دانہ چگنے لگی۔ ایک کبوتر کے ساتھ اس کا جوڑا ملادیا گیا۔ اس کے انڈوں سے جو دوبچے نکلے وہ اپنی خوبصورتی میں یکتا اور منفرد تھے۔ پروں کا رنگ گہرا سیاہ اور باقی جسم سفید تھا۔ ان کے اندر اس قدر کشش تھی کہ جو دیکھتا تعریف کئے بغیر نہ رہتا۔ شامت اعمال ، ایک روز صبح سویرے بلّی نے ایک کبوتر کو پکڑا اور چھت پر لے گئی۔ میں نے جب بلّی کے منہ میں یہ کبوتر دیکھا تو میں اس کے پیچھے دوڑا۔ اوپر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ بلّی نے کبوتر کے بال و پر الگ کردئیے ہیں اور بیٹھی اسے کھا رہی ہے۔ غصّہ تو بہت آیا مگر پھر سوچا کہ کبوتر تو اب مرہی چکا ہے، بلّی کو ہی پیٹ بھرنے دیا جائے اور جب یہ کبوتر کھا چکے گی تو اسے سزادوں گا۔ یہ خیال آتے ہی میں نیچے چلاگیا۔ لیکن مجھے اتنا شدید صدمہ تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ حضور بابا صاحب قبلہؒ پہلی منزل کے کمرے میں تخت پر تشریف فرما تھے۔میں نے حضرت سے احتجاجاً عرض کیا کہ بلّی نے میرا کبوتر ماردیا ہے۔ حضور بابا صاحب نے فرمایا ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ آپ کے ہوتے ہوئے بلی میرا کبوتر لے جائے ، یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ کہنے کے بعد میں دل برداشتہ باورچی خانے میں جاکر ناشتہ تیار کرنے لگا۔میرے حضور باباجی ؒ نے مجھے آواز دی لیکن غصّے نے مجھے گستاخی کرنے پر مجبور کردیا اور میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوبارہ آواز دی۔ وہ بھی میں نے اَن سنی کردی۔ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب بھائی محسن صاحب بھی میرے ساتھ رہتے تھے۔ حضور بابا صاحب ؒ نے بھائی محسن کو آواز دی اور میرے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ صاحب کو کبوتر کے مرنے کا بہت صدمہ ہے۔ اور وہ باورچی خانے میں بیٹھے رو رہے ہیں۔ حضور بابا صاحب ؒ ان کی اس بات سے متاثر ہوئے اور فرمایا۔ ’’خواجہ صاحب کو بلاؤ اور ان سے کہو کہ ان کا کبوتر آگیا ہے۔‘‘
بھائی محسن صاحب صحن میں آئے تو دیکھا کہ وہ کبوتر دوسرے کبوتر کے ساتھ موجود تھا۔ بھائی محسن نے یہ بات مجھے بتائی تو میں نے اس کو مذاق پر محمول کیا اور سمجھا کہ یہ بات میری دل جوئی کے لئے کہہ رہے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے سنجیدگی سے کہا کہ آپ باہر جاکر دیکھیں تو سہی تو میں بے یقینی کے عالم میں اٹھ کر صحن میں آیا۔ دیکھا تو کبوتر موجود تھا۔ کبوتر کو دیکھتے ہی میں دوبارہ دوڑا ہوا چھت پر گیا۔ اور تخت کے نیچے دیکھا تو وہاں خون کے دھبے اور کچھ پَر پڑے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کہ مجھے شدید ندامت اور شرمندگی ہوئی۔ میں نے نیچے آکر حضور بابا صاحب ؒ کے پیر پکڑلئے اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی۔ شام ہونے سے پہلے پہلے سارے کبوتر تقسیم کرد ئیے۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 40 سے 42تک ہے۔