کشف وکرامات
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’ میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو تخلیق کیا تاکہ میں پہچانا جاؤں۔‘‘
پہچاننے کے لئے ضروری تھا کہ مخلوق خالق سے اور خالق کی صفات سے متعارف ہو۔ تعارف کے لئے ضروری ہے کہ درمیان میں ایک ذات ایسی ہو جو تعارف کا منشاء پورا کرسکے۔ تعارف کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ تعارف کرانے والا خود ذات کی پوری صفات کا عارف نہ ہو۔ لہذا یہ ضروری ہوا کہ ذات باری کی صفات کا واقف ایک ایسا نور پیدا ہوجو خالق کے اس منشاء کو جو مخلوق میں تعارف سے ہے، پورا کر سکے۔ یہی نور علی نور سیّدناحضورعلیہ الصّلوٰۃوالسّلام ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی سنّت میں نہ تبدیلی واقع ہوتی ہے اور نہ تعطل پیدا ہوتا ہے ۔ اس لئے سیّدناحضورعلیہ الصّلوٰۃوالسّلام کے پردہ فرمانے کے بعد یہ سلسلہ حضور ؐ کی امت میں اولیاء اللہ کے ذریعے قائم ہے۔ اور ابد تک قائم رہے گا۔ ایسے بندوں سے جب کوئی خرق عادت صادر ہوتی ہے تو کرامت کہلاتی ہے اور یہی خرق عادت جب پیغمبروں کے ذریعے سامنے آتی ہے تو معجزہ کہلاتی ہے ۔ چوں کہ ان پاکیزہ ہستیوں کو حضور اکرم ؐ سے خاص نسبت ہوتی ہے اس لئے ان کی ذات والا صفات سے ایسے ایسے واقعات منظر عام پر آتے ہیں کہ عقلی تشریح ممکن نہیں۔
سیّدنا حضورعلیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے وارث اور اللہ کے دوست حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کی ذات بابرکات سے جو کرامات وقتاً فوقتاً صادر ہوتی رہی ہیں ، قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 39 سے 40تک ہے۔