ہزاروں سال پہلے کا دور
ماہ پرستی اور ستارہ پرستی کے دور میں کہاگیا کہ زمین ٹھہری ہوئی ہے، سورج گردش کرتا ہے۔ یہ بہت پرانا دورتھا، ہزاروں سال پہلے کا دور۔ پھر ایک دور آیا ۔انجانی قوتوں سے ڈرا ہوا انسان کہنے لگا میری ساری گردشیں دیوتاؤں کی قوت سے سرزد ہوتی ہیں ۔ اس دور کے انسان نے یہ بھی کہا کہ کہیں نہ کہیں روحوں کا مرکز ہے۔ اس ہی مرکز سے انسان کی قسمت وابستہ ہے، ستاروں کی قسمت وابستہ ہے، پہاڑوں ، درختوں ، دریاؤں اور جانوروں کی قسمتیں وابستہ ہیں ۔ ہوائیں اور روشنیاں بھی اسی مرکز ارواح سے ملتی ہیں۔ رفتہ رفتہ ان روحوں کی شکل و صورت معین کی گئیں۔ دیوتاؤں کے مجسمے بنائے گئے۔ بت پرستی عام ہوتی چلی گئی۔ فیثاغورث اور تھیس کا زمانہ آیا تو انہوں نے کہا یہ ستارے کیا ہیں ؟ مادہ کیا ہے؟ یہ کائنات کیا ہے؟ مادی ذّرات کا مجموعہ ہے۔ اب انسان کچھ فلسفیانہ اور طبعی طرزوں پر باتیں کرنے لگا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ آدمی کی آنکھوں سے روشنیاں طلوع ہو کر چیزوں کو دیکھتی اور پہچانتی ہیں۔ تمام نوع انسان میں لاکھوں باتیں کرنے والے حکماء ، فلسفی ، ہیئت داں ، طبیعاتی ماہرین وغیرہ پیدا ہوئے اور کچھ نہ کچھ کہتے رہے۔ ان میں اختلاف رائے تھا۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟
اس لئے کہ حقیقت تک کوئی نہیں پہنچا ۔ حقیقت صرف ایک ہوسکتی ہے۔ ہزاروں ، لاکھوں نہیں ہوسکتیں ۔ اگر یہ لوگ حقیقت سے واقف ہوجاتے تو اختلاف رائے ہر گزنہیں ہوتا۔
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب یا رسالہ میں صفحہ نمبر 110 سے 111تک ہے۔