منظوم فراق نامہ
حضور قلندر بابا اولیاؒء اور سید نثار علی بخاری صاحب کے درمیان محبت اور انسیت کی گہرائی کی ہلکی سی جھلک حضور بابا صاحبؒ کے اس منظوم فراق نامہ میں دیکھی جا سکتی ہے جو آپ نے اپنے مہربان زندگانی اور یار جانی سید نثار علی بخاری کے نام اپنے قیام باغپت (یو۔ پی ) سے 5 دسمبر 1942ء کو لکھا تھا۔
اس نظم کے ذیل میں بابا صاحبؒ نے اپنی ایک غزل بھی تحریر فرمائی۔ اس غزل میں حضور قلندر بابا اولیاؒء نے اپنا قلمی تعارف ” زار و نزار ” کے معنوی لقب سے کرایا ہے۔
السلام اے مہربان زندگانی السلام
اے نشاط بزم دل اے یار جانی السلام
اک فقیر بےنوا کے دل میں تیری یاد ہے
تو خفا ہے جس سے وہ تیرے لئے ناشاد ہے
شمع گر خواہد کہ سوزد خرمن پروانہ را
جز بہ طاعت شرط نبود مذھب دیوانہ را
تو گلستان وطن کا سرو ہے شمشاد ہے
مرحبا اس انجمن پر جس میں تو آباد ہے
باغ جنت سے فزوں تر ہے مجھے وہ انجمن
جس میں ہوتے ہیں میرے احباب سرگرم سخن
میرے دل کی خواہش ان آستانوں پر نثار
جو کہ ہیں قدموں سے یاران وطن کے ہمکنار
اے صبا لیجا پیام شوق اس منزل کے نام
فرض ہے جسکے ہر اک کوچہ کا مجھ پر احترام
سر جھکا کر عرض کرنا وہ ادب کا ہے مقام
دوستداران سرور و شادمانی السلام
میں تمہیں محسوس کرتا ہوں دل و جاں کے قریب
پر تم بھولے ہوئے ہو مجھکو یہ میرا نصیب
وہ سحر وہ شام وہ راتوں کی مجلس یاد ہے
ان بہاروں کے لئے دل مائل فریاد ہے
اس زمین کی یاد میں قلب حزیں بیمار ہے
جس کا ہر ذرہ تمہارے سایہ سے گلزار ہے
روزگار شد کہ من کشتی در آب انداختم
کار درد و بندگی با عجز و زاری ساختم
غزل
عشق ہی میرا سفر ہے عشق ہی کاشانہ ہے
میں وہی کشتی ہوں جسکا ناخدا دیوانہ ہے
یاد ہیں وہ دن کہ سر تھا اور لطف پاۓ دوست
اب وہی سر کوہ و صحرا کے لئے افسانہ ہے
شمع اپنے ساتھ دور زندگانی لے گئی
کچھ نہیں محفل میں اک خاکستر پروانہ ہے
دل رہا میرا وہ صورت جلوہ گر جب تک رہی
اب میں بیگانہ ہوں دل سے مجہہ سے دل بیگانہ ہے
میں ہوں اور میخانہ خون محبت ہے عظیم
زندگی میری فقط اک جرأت رندانہ ہے
زارؔ و نزار
مصنف : سید نثارعلی بخاری صاحب
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : کلام عارف