انسانی حافظہ کا خواب میں کردار اور تراش خراش والی ایجنسی
خواب یا عالم رویاء کے بارے میں قلندر بابا اولیاؒء ارشاد فرماتے ہیں،
نوع انسانی آفرینش سے آج تک بیداری اور خواب کے مظاہر کو الگ الگ کرنے کے لئے امتیازی خط نہیں کھینچ سکی۔ ذرا خواب کی علمی توجیہہ پر غور کیجیئ۔ خیال ، تصور ، احساس اور تفکر ذہن کے نقوش ہیں۔ یہی وہ نقوش ہیں جو اندرونی دنیا کہلاتے ہیں۔ ان ہی نقوش کی روشنی میں بیرونی دنیا کو پہچانا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ اندرونی اور بیرونی دنیا کے نقوش مل کر ایک ایسی دنیا بنتے ہیں جس کو ہم واقعاتی دنیا سمجھتے ہیں۔انسان عالم خواب میں چلتا پھرتا ، کھاتا پیتا ہے۔ من و عن انہی کیفیات سے گزرتا ہے جن سے عالم بیداری میں گزرتا ہے۔ وہ جس چیز کو جسم کہتا ہے اس کی حرکت عالم خواب اور عالم بیداری دونوں میں مشترک ہے۔ عالم بیداری میں بار بار واپس آنے کا سراغ انسانی حافظے سے ملتا ہے لیکن انسانی حافظہ خود دور ابتلاء سے گزرتا رہتا ہے۔ یہ کبھی کمزور ہوجاتا ہے کبھی معمول پر آجاتا ہے۔
حافظے کا ذرا سا تجزیہ کیجئے تو پس پردہ ایک ایجنسی ایسی ملے گی جو دیدہ و دانستہ حافظہ کی روئیداد میں فقط اس لئے کمی بیشی کرتی رہتی ہے کہ انسانی کردار کو نمایاں اور غیر معمولی بنا کر پیش کر سکے۔ یہیں سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ عالم بیداری سے متعلق انسانی حافظے کا بیان مستند نہیں ہوسکتا۔
یہ صحیح ہے کہ انسانی حافظہ عالم خواب کی روئیداد بہت ہی کم محفوظ کرتا ہے تا ہم حافظے کے اس طرز عمل سے عالم بیداری کی روئداد کو امتیاز حاصل نہیں ہوتا۔ حافظہ تنہا کبھی کام نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ تراش خراش کرنے والی ایجنسی ضرور لگی رہتی ہے اور حافظے کی دلچسپی اس ہی روئداد سے وابستہ رہتی ہے جس میں تراش خراش کرنے والی ایجنسی کی کارپردازی زیادہ ہو۔ شاذ ہی ہوتا ہے کہ حافظہ عالم خواب کا تذکرہ کرے۔ وجہ ظاہر ہے کہ تراش خراش کرنے والی ایجنسی کی دلچسپی عالم خواب میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو انسانی حافظہ عالم خواب کو رد کرنے کا عادی نہ ہوتا۔ اب سنجیدگی کا فتویٰ بجز اس کے کچھ نہیں ہوسکتا کہ عالم خواب زیادہ مستند ہے۔اس کا تجزیہ حافظے کے اسلوب کار کو سمجھنے سے بآسانی ہوجاتا ہے۔ حافظہ چند باتوں کو رد کرتا ہے اور چند باتوں کو دہراتا ہے۔ رد کی ہوئی باتیں بھول کے خانے میں جا پڑتی ہیں اور شعور ان سے بے خبر رہتا ہے۔ روزمرہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہم اخبار پڑھتے ہیں ، چند باتیں یاد رکھتے ہیں اور باقی بھول جاتے ہیں۔ انسان کی آفرینش ہی سے حافظے کا یہ طرز عمل اس کے اطوار میں داخل رہا ہے۔ اسی لئے عالم خواب کی علمی تشکیل اور توجیہہ فکر انسانی نے اب تک نہیں کی ہے۔ کشف و الہام عالم خواب ہی سے شروع ہوتے ہیں۔
مصنف : سہیل احمد
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۵ِِ