خواب روح کی زبان ہے
ایک خواب(یقین کی قوت) کےجواب میں قلندر بابا اولیاؒء نے یوں تحریر فرمایا
خواب کو اختصار میں سمجھنے کے لئے چند باتیں پیش نظر رکھنا ضروری ہیں۔
۱۔ انسانی زندگی کے تمام کاموں کا دارومدار حواس پر ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا کہ حواس کیا ہیں اور کس طرح مرتب ہوتے ہیں تفصیل طلب ہے۔ صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ہمارے تجربے میں حواس کا زندگی سے کیا تعلق ہے …حواس کو زیادہ تر اسٹف Stuff بصارت سے ملتا ہے۔ اس اسٹف کی مقدار % 95 یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ باقی اسٹف جو تقریباً % 4 ہے بقیہ چار حصوں کے ذریعے ملتا ہے۔ دراصل یہ اسٹف کوڈ Code یا استعارے کی صورت اختیار کرلیتا ہے …ہم استعارے کو اپنی زندگی کی حدود میں اس کی ضروریات اور اس کے متعلقات کے دائرے میں سمجھتے اور بیان کرتے ہیں۔ انہی استعاروں کے اجتماعی نتیجے سے ہماری زندگی کی میکانیکی تحریکات اور اعمال و وظائف اعضاء بنتے ہیں …ان اعمال و وظائف میں ایک ترتیب ہوتی ہے۔ ترتیب کو قائم رکھنے کے لئے ذات انسانی میں ایک تفکر پایا جاتا ہے یہ تفکر جسے روح کہہ سکتے ہیں شعور سے ماوراء ہے چاہے اس کو لاشعور کہیئے ، یہی تفکر شعور کو ترتیب دیتا ہے۔ ان میں زیادہ سے زیادہ استعارے محدود ضرورتوں اور محدود عقل ، محدود اعمال و وظائف کے دائروں سے باہر ہوتے ہیں …اب جو کم سے کم استعارے باقی رہے۔ ترتیب میں آئے اور شعورکا نام پاگئے ان کو بیداری کی زندگی کہا جاتا ہے اور کثیر المقدار استعارے خواب کے لا محدود ذخیروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
۲۔ کبھی کبھی ذات انسانی ، انا ، روح یا لاشعور کو ان لامحدود ذخیروں میں سے کسی جزو کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ اس کے دو اہم مندرجات ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو بیداری کی زندگی سے متعلق مستقبل میں کام کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو شعور کے کسی تجربے کو یاد دلاتے ہیں تاکہ شعور اس کا فائدہ اٹھا سکے …جب روح ان ذخیروں میں سے کسی جزو کو استعمال کرتی ہے تو اس جزو کا تمام اسٹف نہ شعور حافظہ میں رکھ سکتا ہے نہ سنبھال سکتا ہے بلکہ خال خال حافظہ میں رہ جاتا ہے۔ اسی کو شعور خواب کا نام دیتا ہے …
اس تشریح کی روشنی میں خواب کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے … جو استعارے بچپن میں بصورت عقائد فہم میں نہیں سما سکتے ، اب وہ خواب میں اس لئے دہرائے گئے ہیں کہ شعور ان کو تشریح اور تفصیل کے ساتھ سمجھے۔ ساتھ ہی اعتماد اور یقین کی پختگی حاصل کرے …
مصنف : سہیل احمد
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۵ِِ