یقین کی قوت
کراچی سے رفعت جہاں صاحبہ نے اپنا خواب یوں لکھا،
میں نے دیکھا کہ میں چار پانچ سال کی بچی ہوں اور اپنے اسکول کی چھت پر کھڑی ہوں۔ آسمان صاف شفاف ہے جیسے بارش کے بعد گرد و غبار دھل جانے کے بعد آسمان کا رنگ نکھر جاتا ہے۔ کسی طرف سے بادل کا ایک دبیز ٹکڑا آسمان پر آگیا اور اس بادل کے ٹکڑے پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے یہ بادل کسی فلمی منظر کی طرح گزر گیا۔ اس کے پیچھے بادل کے بڑے بڑے ٹکڑے آئے۔ ان پر قرآن کریم کی مختلف آیات لکھی ہوئی ہیں۔ یہ بادل بھی ہوا کے دوش پر بہت دور چلے گئے پھر ایسا ہوا کہ دو بادل کے ٹکڑے نظر کے سامنے آکر ٹھہر گئے۔ ان دونوں کے درمیان ایک بزرگ صورت انسان کا چہرہ نمودار ہوا۔ یہ بزرگ مسکرا کر میری طرف دیکھ رہے ہیں۔
درخواست ہے کہ خواب کی تعبیر کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں کہ خواب کیوں نظر آتے ہیں۔
جواب
جواب میں قلندر بابا اولیاؒء نے یوں تحریر فرمایا،
خواب کو اختصار میں سمجھنے کے لئے چند باتیں پیش نظر رکھنا ضروری ہیں۔
۱۔ انسانی زندگی کے تمام کاموں کا دارومدار حواس پر ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا کہ حواس کیا ہیں اور کس طرح مرتب ہوتے ہیں تفصیل طلب ہے۔ صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ہمارے تجربے میں حواس کا زندگی سے کیا تعلق ہے حواس کو زیادہ تر اسٹف Stuff بصارت سے ملتا ہے۔ اس اسٹف کی مقدار % 95 یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ باقی اسٹف جو تقریباً % 4 ہے بقیہ چار حصوں کے ذریعے ملتا ہے۔ دراصل یہ اسٹف کوڈ Code یا استعارے کی صورت اختیار کرلیتا ہے ہم استعارے کو اپنی زندگی کی حدود میں اس کی ضروریات اور اس کے متعلقات کے دائرے میں سمجھتے اور بیان کرتے ہیں۔ انہی استعاروں کے اجتماعی نتیجے سے ہماری زندگی کی میکانیکی تحریکات اور اعمال و وظائف اعضاء بنتے ہیں ان اعمال و وظائف میں ایک ترتیب ہوتی ہے۔ ترتیب کو قائم رکھنے کے لئے ذات انسانی میں ایک تفکر پایا جاتا ہے یہ تفکر جسے روح کہہ سکتے ہیں شعور سے ماوراء ہے چاہے اس کو لاشعور کہیئے ، یہی تفکر شعور کو ترتیب دیتا ہے۔ ان میں زیادہ سے زیادہ استعارے محدود ضرورتوں اور محدود عقل ، محدود اعمال و وظائف کے دائروں سے باہر ہوتے ہیں اب جو کم سے کم استعارے باقی رہے۔ ترتیب میں آئے اور شعورکا نام پاگئے ان کو بیداری کی زندگی کہا جاتا ہے اور کثیر المقدار استعارے خواب کے لا محدود ذخیروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
۲۔ کبھی کبھی ذات انسانی ، انا ، روح یا لاشعور کو ان لامحدود ذخیروں میں سے کسی جزو کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ اس کے دو اہم مندرجات ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو بیداری کی زندگی سے متعلق مستقبل میں کام کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو شعور کے کسی تجربے کو یاد دلاتے ہیں تاکہ شعور اس کا فائدہ اٹھا سکے جب روح ان ذخیروں میں سے کسی جزو کو استعمال کرتی ہے تو اس جزو کا تمام اسٹف نہ شعور حافظہ میں رکھ سکتا ہے نہ سنبھال سکتا ہے بلکہ خال خال حافظہ میں رہ جاتا ہے۔ اسی کو شعور خواب کا نام دیتا ہے
اس تشریح کی روشنی میں خواب کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے جو استعارے بچپن میں بصورت عقائد فہم میں نہیں سما سکتے ، اب وہ خواب میں اس لئے دہرائے گئے ہیں کہ شعور ان کو تشریح اور تفصیل کے ساتھ سمجھے۔ ساتھ ہی اعتماد اور یقین کی پختگی حاصل کرے
تعبیر
ایک بزرگ کا چہرہ اس امر کا تمثل ہے کہ ابھی شعور میں یہ چیزیں ناپختہ ہیں۔ ذہن ڈگمگاتا ہے۔ اور یقین کی وہ قوت طبیعت کو حاصل نہیں ہے جو مستقبل کے محرکات اور اعمال و وظائف بنتے ہیں۔ طبیعت نے انتباہ کیا ہے کہ اس قوت کا حاصل کرنا زندگی کے لائحہ عمل میں استحکام پیدا کرنے کے لئے اور فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے
روح نے یہ بتایا کہ بہتر اور کامیاب زندگی اس طرح حاصل ہوسکتی ہے کہ یقین کی قوت سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ قوت ہی منزل تک پہنچا سکتی ہے۔ دوسرا خواب بھی اسی خواب کا اعادہ ہے۔ استعارے معکوس ہیں۔
مصنف : سہیل احمد
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۵ِِ