زمرہ جات:

قرآنی مظاہر کی قسم اور بنیادی ضابطے

قرآن پاک کا ایک اسلوب بیان یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف مظاہر کی قسمیں کھا کر ایسے ضابطوں کی طرف زور دے کر توجہ دلائی ہے جو مظاہر کی بنیادوں میں کارفرما ہیں۔ اس اسلوب بیان کا مختلف سورتوں کی ابتداء میں ہونا اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ان مظاہر کی حیثیت فی الواقع کیا ہے ؟ اور یہ تخلیق کی تدوین میں کیا کردار انجام دیتے ہیں ؟

بابا صاحبؒ نے سورہ طور کی ابتدائی سات آیات کا ترجمہ اور تشریح اس پیرائے میں بیان کی ہے :

ترجمہ:  قسم ہے پہاڑ کی اور بین السطور کتاب کی جو وسیع تر ورق ہے ، اور بیت المعمور کی ، اور قدرت کی حد بندیوں کی ، اور نزول کرتے سمندر کی کہ آپ کے رب کی وعید کو پورا ہونا ہے۔

تشریح :  اللہ تعالیٰ نے بار بار قرآن پاک میں لیل و نہار کا تذکرہ اس طرح کیا ہے جس میں مظاہر قدرت کی طرف کھلا اشارہ پایا جاتا ہے۔ دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک الگ مظاہر کا مجموعہ ہے اور رات الگ مظاہر کا۔ ایسے مظاہر جو دن میں رونما ہوتے ہیں ، رات میں رونما نہیں ہوتے اور ایسے مظاہر جو رات میں رونما ہوتے ہیں ، دن میں رونما نہیں ہوتے۔ یہ وہی مظاہر ہیں جن سے قلبی واردات بنتی ہے اسی قلبی واردات کا نام حواس ہے۔ دن کی روشنی میں انسان کے دیکھنے ، سننے اور سمجھنے کی طرزیں رات کی طرزوں سے بالکل الگ ہوتی ہیں۔ کئی ایسی چیزیں جو دن کے وقت بشاشی اور شگفتگی لاتی ہیں ، رات میں خوف و دہشت پیدا کرتی ہیں۔ غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دن رات کس درجہ مختلف ہیں۔ مصنوعی روشنیوں کے ذریعے رات کو کتنا ہی منور بنا لیا جائے ، وہ دن کے مظاہر پیدا نہیں کرسکتی اور دن کو کتنا ہی خاموش اور پرسکون بنا لیا جائے ، وہ رات کے مظاہر پیدا نہیں کرسکتا۔

یہ سب قدرت کے ضابطے ہیں اور ایسے فارمولے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے کتاب مسطور فرمایا ہے۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ’والطور‘ فرمایا ہے یعنی پہاڑ کی قسم کھائی ہے۔ یہ قسم عنوان ہے ان ہی مظاہر کی کتاب کا۔

 

اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کے بارے میں قرآن کے اندر ہی وضاحت کردی ہے کہ

’تم دیکھتے ہو پہاڑ اور گمان کرتے ہو کہ یہ جمے ہوئے ہیں۔ ‘

ان الفاظ سے اللہ تعالیٰ انسانی مشاہدہ کو رد کردیتے ہیں اور حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔ گویا ان پہاڑوں کی جو حیثیت انسانی نگاہ میں ہے صحیح نہیں ہے۔ دراصل یہ مظاہر قدرت کے رازوں کا گہوارہ ہیں۔ ہیں تو یہ گردش میں اور تیز گردش میں اور ساتھ ہی ایسے پریشر کے بانی ہیں جس سے زمین کے مظاہر کی نوعیتیں رد و بدل ہوتی ہیں۔

آیت نمبر 1 میں اور 2 میں یہی بات بیان کی گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ کتاب وسیع تر ورق کی حیثیت رکھتی ہے یہاں تک کہ یہ کتاب وسیع ترین آبادیاں اور بلند ترین آسمانی رفعتیں اسی کے اندر سما جاتی ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ یہ کتاب اور وسیع تر ورق کو محیط ہے بلکہ نازل ہونے والے تمام مظاہر کے سمندر اسی سے وابستہ ہیں۔یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ایک روز ان سب کا اتمام ہوجائے۔ جس طرح مظاہر کی ابتداء ہوئی ، ان کی انتہا بھی ہے۔ پھر وہ لوگ جو تیرے رب کے نافرمان ہوگئے ان کے لئے عذاب کی بشارت ہے۔

اوپر کی سطروں میں بیان کردہ قرانی آیات کی تشریح اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ قرآن پاک علوم و معارف کا خزینہ ہے اور اس میں وہ تمام فارمولے بیان کئے گئے ہیں جن کے ذریعے ہم ان طریقوں سے اس لئے واقف نہیں ہیں کہ ہم نے تفکر کی راہ کو چھوڑ دیا ہے اور خلوص پر مبنی جدوجہد کی بجائے تقلید اور جمود کا شکار ہوگئے ہیں۔

 

حضور قلندر بابا اولیاؒء کی ذات گرامی علم و عرفان اور تسخیر کائنات کا نشان راہ ہے۔ آپ کی ذات ایک ایسا روشن چراغ ہے جس کو زمانہ کی گردش خود روشن کرتی ہے تاکہ تیرہ و تاریک زمانہ میں نور و ظلمت کا توازن برقرار رہے۔

 

جناب رسالت مآب صلّ اللہ علیہ وسلّم نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ کی شان میں فرمایا کہ … ” زمین میں گمنام لیکن آسمانوں میں مشہور۔ ”

حضور بابا صاحبؒ بھی ایسے لوگوں میں سے ہیں۔ اگرچہ آپ نے گمنام زندگی بسر کی لیکن اپنی تحریروں کے ذریعے جو نقوش چھوڑ گئے ہیں اور جو کچھ آشکار کرگئے ہیں ، زمانہ اس عظمت کو آج نہیں تو کل سمجھنے کے قابل ضرور ہوجائے گا۔

مصنف : سہیل احمد

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۸۲ِِ

اس سلسلے کے تمام مضامین :

قرآنی آیات کی تفسیر