زمرہ جات:

قلوب الابرار قبور الاسرار

ایک مرتبہ ابوتراب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا…” قلوب الابرار قبور الاسرار

یعنی اولیاء اللہ کے سینے اسرار الٰہی کی قبریں ہیں ” …

 

حضرت علی المرتضٰیؓ کا یہ قول حامل علم لدنی سید محمّد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیاؒء پر صادق آتا ہے۔ ایسے لوگ جنہیں حضرت بابا صاحب کی قربت کی سعادت حاصل ہوئی وہ یہ بات جانتے ہیں کہ بابا صاحبؒ کی شخصیت کا محور توحید باری تعالیٰ ، ذات رسالت مآب صلّ اللہ علیہ وسلّم اور قرآن پاک تھا۔ بابا صاحبؒ کو یہ عظیم الشان اعزاز حاصل ہے کہ آپ دربار نبوت صلّ اللہ علیہ وسلّم سے فیض یافتہ ہیں۔

اس فیض سے ہی ان کو قرآن پاک کی تفہیم کی وہ روشنی حاصل ہوئی ہے جو سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کی طرز فکر کی پرتو ہے۔ بابا صاحب ان اولیاء اللہ کی صف میں نظر آتے ہیں جن پر قرآن کی یہ آیت صادق آتی ہے۔

ترجمہ: ہم نے اللہ کا رنگ اختیار کیا اور اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہے۔ (سورہ البقرہ۔ آیت 137)

 

قدرت نے قلندر بابا اولیاؒء کو کائناتی فارمولوں اور اسرار الہی کا امین بنایا۔ ہم ذیل میں قلندر بابا اولیاؒء کی تحریر کردہ چند آیات قرانی کی روحانی تفسیر پیش کر رہے ہیں۔ اس کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کائناتی فارمولوں کی عظیم ترین دستاویز اور علوم و معارف کا بے مثل خزینہ ہے۔

 

ترجمہ : شروع اللہ کے نام سے جو بڑا رحمٰن اور رحیم ہے۔

لوح محفوظ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی فرد دوسرے فرد سے روشناس ہوتا ہے تو اپنی طبیعت میں اس کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس طرح دو افراد میں ایک فرد اثر ڈالنے والا اور دوسرا فرد اثر قبول کرنے والا ہوتا ہے۔ اصطلاحاً ہم ان دونوں میں سے ایک کا نام حساس اور دوسرے کا نام محسوس رکھتے ہیں۔ احساس محسوس کا اثر قبول کرتا ہے اور مغلوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً زید جب محمود کو دیکھتا ہے تو محمود کے متعلق اپنی معلومات کی بنا پر کوئی رائے قائم کرتا ہے۔ یہ رائے محمود کی صفت ہے جس کو بطور احساس زید اپنے اندر قبول کرتا ہے۔ یعنی انسان دوسرے انسان یا کسی چیز کی صفت سے مغلوب ہوکر اور اس چیز کی صفت کو قبول کرکے اپنی شکست اور محکومیت کا اعتراف کرتا ہے۔یہاں آکر انسان ، حیوانات ، نباتات ، جمادات سب کے سب ایک ہی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں اور انسان کی افضلیت گم ہوکر رہ جاتی ہے۔ اب یہ سمجھنا ضروری ہوگیا کہ آخر انسان کی وہ کون سی حیثیت ہے جو اس کی افضلیت کو قائم رکھتی ہے اور اس حیثیت کو حاصل کرنا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے ؟

انبیاء اس حیثیت کو حاصل کرنے کا اہتمام اس طرح کیا کرتے تھے کہ وہ جب کسی چیز کے متعلق سوچتے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کوئی رشتہ براہ راست قائم نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی چیز کا رشتہ ہم سے براہ راست نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔

رفتہ رفتہ ان کی یہ طرز فکر مستحکم ہوجاتی تھی اور ان کا ذہن ایسے رجحانات پیدا کرلیتا تھا کہ جب وہ کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے تھے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف خیال جاتا تھا۔ انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے پیشتر یہ احساسعادتاً ہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ اس چیز کا اور ہمارا واسطہ اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے۔

جب ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی تو ان کے ذہن کی ہر حرکت میں اللہ تعالیٰ کا احساس ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہی بحیثیت محسوس کے ان کا مخاطب اور مد نظر قرار پاتا تھا اور قانون کی رو سے اللہ تعالیٰ کی صفات ہی ان کا احساس بنتی تھیں۔ رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کی صفات ان کے ذہن میں ایک مستقل مقام حاصل کرلیتی تھیں یا یوں کہنا چاہیئے کہ ان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا تھا۔ یہ مقام حاصل ہونے کے بعد ان کے ذہن کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کی صفات کی حرکت ہوتی تھی اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی کوئی حرکت قدرت اور حاکمیت کے وصف سے خالی نہیں ہوتی۔ چنانچہ ان کے ذہن کو یہ قدرت حاصل ہوجاتی تھی کہ وہ اپنے ارادوں کے مطابق موجودات کے کسی ذرہ ، کسی فرد اور کسی ہستی کو حرکت میں لاسکتے تھے۔

 

بسم اللہ شریف کی باطنی تفسیر اس ہی بنیادی سبق پر مبنی ہے۔ اولیائے کرام میں اہل نظامت ( اللہ کی ایڈمنسٹریشن کے کارندے ) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی ذہن عطا کیا جاتا ہے اور قرب نوافل والے اولیائے کرام اپنی ریاضت اور مجاہدوں کے ذریعے اس ہی ذہن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مصنف :

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۲۰۰۳ِِ

اس سلسلے کے تمام مضامین :

قرآنی آیات کی تفسیر