زمرہ جات:

سورۃ المزمل ۔ روحانی علوم

ترجمہ : اے کپڑوں میں لپٹنے والے ، رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات ( کہ اس میں قیام نہ کرو بلکہ آرام کرو ) یا اس نصف سے کسی قدر کم کردو یا نصف سے کسی قدر بڑھا دو اور قرآن خوب خوب صاف پڑھو ( کہ ایک ایک حرف الگ الگ ہو ) ، ہم تم پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں۔ بے شک رات کے اٹھنے میں دل اور زبان کی خوب موافقت ہوتی ہے اور بات خوب ٹھیک نکلتی ہے۔ بے شک تم کو دن میں بہت کام رہتا ہے اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کرکے اس ہی کی طرف متوجہ رہو۔ وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں۔(سورہ مزمل)

 

جب ہم آدمی کی پوری زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی زندگی کا نصف لاشعور کے اور نصف شعور کے زیر اثر ہے۔ پیدائش کے بعد انسانی عمر کا ایک حصہ قطعی غیر شعوری حالت میں گزرتا ہے۔

پھر ہم تمام زندگی میں نیند کا وقفہ شمار کریں تو وہ عمر کی ایک تہائی سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر غیر شعوری عمر اور نیند کے وقفے ایک جگہ جمع کئے جائیں تو پوری عمر کا نصف ہوں گے۔ یہ وہ نصف ہے جس کو انسان لاشعور کے زیر اثر بسر کرتا ہے۔ ایسا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا جس نے قدرت کے اس قانون کو توڑ دیا ہو۔ چنانچہ ہم زندگی کے دو حصوں کو لاشعوری اور شعوری زندگی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہی زندگی کی دو قسمیں ہیں۔

 

لاشعوری زندگی کا حصہ لازم غیر رب کی نفی کرتا ہے اور اس نفی کا حاصل اسے غیر ارادی طور پر جسمانی بیداری کی شکل میں ملتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص لاشعور کے زیر اثر زندگی کے وقفوں میں اضافہ کردے تو اسے روحانی بیداری میسر آسکتی ہے۔ اس اصول کو قرآن پاک نے سورۂ مزمل میں بیان فرمایا ہے۔

 

متذکرہ بالا آیات کی رو سے جس طرح جسمانی توانائی کے لئے انسان غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے کا پابند ہے ، اس ہی طرح روحانی بیداری کے لئے شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنا ضروری ہے۔ سورۂ مزمل کی مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہی قانون بیان فرمایا ہے۔ جس طرح غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے جسمانی زندگی کی تعمیر ہوتی ہے اس ہی طرح شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے۔

 

جس چیز کو مذکورہ بالا عبارت میں لاشعور کہا گیا ہے اور حضورعلیہ الصلوة والسلام کی زبان میں ” نفس ” اور قرآن پاک کی زبان میں ” حبل الورید ” اس ہی کو تصوف کی زبان میں ” انا ” کہتے ہیں۔ جب غیر رب کی نفی کی جاتی ہے اور” انا ” کا شعور باقی رہتا ہے تو یہی ” انا ” اپنے رب کی طرف صعود کرتی ہے۔ جب یہ ” انا ” صعود کرکے صفت الہیہ میں جذب ہوجاتی ہے تو صفت الہی کے ساتھ منسلک ہوکر حرکت کرتی ہے۔ ” انا ” کے صفت الہیہ میں جذب ہوجانے کی کئی منزلیں ہیں۔ پہلی منزل ہے ایمان لانا۔

مصنف :

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۲۰۰۳ِِ

اس سلسلے کے تمام مضامین :

قرآنی آیات کی تفسیر