زمرہ جات: تفسیر

سورۃ البقرۃ ۔ غیب

ترجمہ : الم۔ اس کتاب میں کوئی شک و شبہ نہیں ، ہدایت دیتی ہے متقیوں کو۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یقین رکھتے ہیں غیب پر۔(سورۂ البقرہ)

یہاں غیب سے مراد وہ تمام حقائق ہیں جو انسان کے مشاہدات سے باہر ہیں۔ وہ سب کے سب اللہ کی معرفت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایمان سے مراد ذوق ہے۔ ذوق وہ عادت ہے جو تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ اس لئے نہیں کہ اسے کوئی معاوضہ ملے گا بلکہ صرف اس لئے کہ طبیعت کا تقاضہ پورا کرے۔

متقی سے وہ انسان مراد ہے جو سمجھنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے۔ ساتھ ہی بدگمانی کو راہ نہیں دیتا ، وہ اللہ کے معاملے میں اتنا محتاط ہوتا ہے کہ کائنات کا کوئی روپ اسے دھوکہ نہیں دے سکتا۔ وہ اللہ کو بالکل الگ سے پہچانتا ہے اور اللہ کے کاموں کو بالکل الگ سے جانتا ہے۔ صحیح طور پر پہچاننے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر ذوق موجود ہے۔ درحقیقت وہی ذوق لائف اسٹریم ( چشمۂ حیات ) ہے۔

غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب پر یقین رکھنا ضروری ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں لوح محفوظ کا یہی قانون بیان ہوا ہے۔ نوع انسانی اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اس قانون پر عمل پیرا ہے۔ یہ دن رات کے مشاہدات اور تجربات ہیں۔ جب تک ہم کسی چیز کی طرف یقین کے ساتھ متوجہ نہیں ہوتے ہم اسے دیکھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔

اگر ہم کسی درخت کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو اس درخت کی ساخت ، پتیاں ، پھول ، رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے لیکن پہلے ہمیں قانون کی شرط پوری کرنا پڑتی ہے۔ یعنی پہلے ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اس یقین کے اسباب کچھ ہی ہوں تاہم اپنے ادراک میں کسی درخت کو جو ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے ایک حقیقت ثابتہ تسلیم تفسیرکرنے کے بعد اس درخت کے پھول ، پتوں ، ساخت اور رنگ و روپ کو دیکھ سکتے ہیں۔

مصنف :

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۲۰۰۳ِِ

اس سلسلے کے تمام مضامین :

قرآنی آیات کی تفسیر