زمرہ جات:

دیباچہ

قرآن پاک کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ لوح محفوظ پر موجود ہے۔ لوح محفوظ کائناتی تخلیق کے پروگرام کی بنیادی شکل ہے۔ قرآن مجید کے متعلق ایک اور ارشاد ربانی ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی اور کوئی بڑی سے بڑی چیز ایسی نہیں ہے جو اس میں بیان نہ کردی گئی ہو۔ ان دونوں آیات کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن پاک کی بنیاد (Base ) لوح محفوظ ہے۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کائناتی تشکیل کے قوانین کا مجموعہ ہے اور اگر مادی دنیا میں جہاں مفہوم کی منتقلی کے لئے الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے ، قدرت کے طرز عمل کو بیان کرنے کے لئے مختصر اور آسان ترین الفاظ استعمال کئے جائیں تو وہ قرآن پاک کی زبان ہے۔

قرآن پاک میں ہر قسم کے مضمون کی طرف اشارات ملتے ہیں۔ کہیں آسمانوں کا ذکر ہے ، کہیں زمین کے بارے میں بیان کیا گیا ہے ، کہیں تخلیقی مراحل پر روشنی ڈالی گئی ہے ، کہیں وسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے ، کہیں اجرام فلکی کی حیثیت بتائی گئی ہے۔

ان آفاقی تذکروں کے ساتھ ساتھ آدمی کی معاشی ، معاشرتی اور تاریخی زندگی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ان اشارات کے پیچھے افہام و تفہیم کیا ہے اور یہ کن رازوں اور فارمولوں کو بیان کرتے ہیں اس بات کو سمجھنا اس وقت ممکن ہے جب آدمی کے اندر صاحب قرآن کی طرز فکر کام کر رہی ہو اور آدمی قرآن کو قرآن کی سطح پر آکر سمجھنے کی کوشش کرے۔

قرآن پاک میں جگہ جگہ اس بات کا تذکرہ ہے کہ ہماری آیات کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جن میں تفکر کی صلاحیت موجزن ہے ، جو صاحبان عقل ہیں ، جو شعور رکھتے ہیں ، جو راسخ فی العلم ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تفکر ، فہم اور علم میں راسخ ہونے کی صلاحیت بخشی ہے ، وہ قرآن پاک کے بیان کردہ تخلیقی فارمولوں سے وقف ہیں۔

تفکر ، شعور ، عقل یہ ساری اصطلاحات ایک مخصوص طرز ذہن اور طرز فکر کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ جب بندے کا ذہن ہر طرف سے ہٹ کر صرف اور صرف اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور وہ اللہ کے لئے جیتا اور مرتا ہے تو ایسے بندے کی راہنمائی کا فریضہ خود ذات باری تعالیٰ اپنے ذمہ لے لیتی ہے اور پھر ان پر معرفت خداوندی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

“جو لوگ ہمارے لئے جہد کرتے ہیں ، ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں۔ ”

 

ایسے بندوں کی صفت بیان کی گئی ہے :

” ہم ان کو آفاق و انفس میں اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں گے تاکہ انہیں معلوم ہوجائے(یعنی ان پر یہ بات منکشف ہوجائے گی)کہ قرآن حق ہے۔ ”

 

 

اس سے پتہ چلتا ہے کہ مشاہدہ ہی وہ ذریعہ ہے جس سے قرآن پاک کے بیان کردہ مضامین کی مکمل اور حقیقی معنویت سامنے آتی ہے۔

 

حضورعلیہ الصلوة والسلام کا ارشاد گرامی ہے :

“مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ ”

 

ایسے قدسی نفس حضرات ہر زمانے میں موجود رہے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ نور بصیرت عطا ہوا۔ ماضی قریب میں حضرت سید محمّد عظیم برخیا حضور قلندر بابا اولیاؒء بھی ایک ایسی ہی ہستی ہیں۔

 

جو لوگ حضرت بابا صاحبؒ کی صحبت میں رہے ہیں وہ یہ بات جانتے ہیں کہ بابا صاحبؒ عرفان خداوندی کی جن بلندیوں پر فائز تھے اور آپ کو تخلیق کے فارمولوں میں کس قدر دخل عطا کیا گیا تھا۔ بابا صاحبؒ نے جو تحریریں چھوڑی ہیں ، وہ خود صاحب تحریر کی عظمت کی دلیل ہیں۔

لوح و قلم ، رباعیات اور تذکرہ تاج الدین بابا وہ تحریریں ہیں جو قارئین روحانی ڈائجسٹ کی نظروں سے گزر چکی ہیں اور محتاج تعارف نہیں ان تحریروں کے علاوہ چند ارشادات ایسے ہیں جو بابا صاحبؒ نے سائلین کے جواب میں لکھوائے اور ان میں قرآن پاک کی بعض آیات کے ترجمے اور مختصر تشریحات بیان کیں۔

ہم ذیل میں چند اقتباسات پیش کرتے ہیں تا کہ قارئین کو اندازہ ہوجائے کہ قرآن محض ایک مسئلہ مسائل کی کتاب نہیں بلکہ یہ کائناتی فارمولوں کی دستاویز ہے اور یہ کہ حضور بابا صاحبؒ کو قدرت نے اپنا کس قدر رازداں بنایا ہے۔

مصنف : سہیل احمد

⁠⁠⁠حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۸۲ِِ

اس سلسلے کے تمام مضامین :

قرآنی آیات کی تفسیر