حَيْثُ شِـئْتُمَا ۔ سورۃ البقرۃ آیت ۳۵، ۳۶
سورہ بقرہ آیت نمبر 35 کی تشریح کے ضمن میں بابا صاحب لکھواتے ہیں :
ترجمہ: ” اور کہا ہم نے اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں جہاں چاہو قیام کرو اور خوش و خرم جہاں سے جو چیز پسند ہو کھاؤ ، البتہ اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم ظلم کے خصائل میں گرفتار ہوجاؤ گے”۔
آیت نمبر 36
“لیکن ان کو شیطان نے گمراہ کردیا اور جس آرام میں وہ تھے اس سے محروم کردیا۔ ہم نے کہا ، تم سب اسفل ہوجاؤ کیونکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ تمہیں ایک معین مدت تک زمین کو مستقر بنا کر کام چلانا ہوگا”۔
ان دونوں آیتوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جنت کے قیام میں وسائل آدم کے پابند تھے اور زمین پر آنے کے بعد وہ خود وسائل کے تابع ہوگئے۔
حیث شئتما ۔ جس جگہ چاہو ( حیث بمعنی اسپیس Space )۔ ان دو لفظوں سے صاف ظاہر ہے کہ اسپیس کوآدم کا محکوم کردیا گیا تھا۔ حیث یا اسپیس کائنات کی ہر چیز کو محیط ہے۔ چنانچہ اس وقت آدم کی یہ حیثیت تھی کہ مکان اس کے ارادے کے تابع تھا۔ آدم کی یہ DEFINATION نمایاں طور پر خود اللہ تعالیٰ نے اپنے بیان میں واضح کردی ہے لیکن جب یہی آدم اسفل میں پہنچتا ہے تو اس کی پوزیشن بالکل متضاد ہوجاتی ہے ، اس طرح کہ ہر اک اسپیس اس پر حاوی ہے۔ قدم قدم پر اس کو وسائل کی پابندیاں گھیرے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ انسان …. کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن گیا ہے۔ حیث ( SPACE ) کی ایک مثال پر غور کیجئے۔ آپ اخبار پڑھتے ہیں۔ نظر چھپے ہوئے الفاظ پر رہتی ہے اور پڑھتے اور سمجھتے چلے جاتے ہیں۔ بیک وقت اخبار کو مس کرتے ہیں۔ مس کرنا ایک اسپیس ہے اور دیکھنا دوسری اسپیس ہے۔ ایک سائنسدان ان دونوں کو بالترتیب VISUAL SPACE اور TACTUAL SPACE کہتا ہے۔
اخبار پڑھنے والے ہمیشہ اخبار پڑھتے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کن کن صلاحیتوں کو ملا کر ایک نتیجہ پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ TACTUAL SPACE اور VISUAL SPACE بالکل الگ الگ ہیں۔ محض ضرورتاً وہ ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوجاتی ہیں۔ یہاں تک کہ اخبار پڑھنے والا بے تکلف پڑھتا چلا جاتا ہے۔
اس مثال سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اخبار پڑھنے میں یہی دو اسپیس کام کرتی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ اور بھی کتنی ہی اسپیسز ( SPACES ) شامل ہوکر عمل کرتی ہیں۔ اختصار کو مدنظر رکھ کر ان کا تذکرہ قلم انداز کردیا گیا ہے۔
نفسیاتی سائنس کے لاشمار تجربات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ چیزیں جس طرح نظر آتی ہیں حقیقتاً وہ اس طرح نہیں ہیں۔ اگرچہ بادی النظر میں یہ بات حواس کے علم سے ماوراء ہے تاہم حواس کی شکست و ریخت خود ہی انسانی ذہن کو ان حدود میں پہنچادیتی ہے جن میں وہ حقائق کی جھلک کا ادراک کرنے لگتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ بڑی تفصیلات کے ساتھ ان حقائق کا تذکرہ کیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ انسان تفکر ( مراقبہ ) کے ذریعے عمومی حواس کی سرحد پار کرکے ان روشنیوں سے جو ہمہ وقت فکر انسانی میں کارفرما ہیں نئے حواس کی تشکیل کرسکتا ہے۔ یہی حواس اسے زمان و مکان کی پابندیوں سے آزاد کرتے ہیں یہاں تک کہ انسان تجلی ذات کو پا لیتا ہے۔
مصنف : سہیل احمد
حوالۂِ کتاب یا رسالہ : روحانی ڈائجسٹ جنوری ۱۹۸۲ِِ